Islam Times:
2025-11-03@18:02:16 GMT

شام میں قتل و غارت اور عدم استحکام

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

شام میں قتل و غارت اور عدم استحکام

اسلام ٹائمز: سکیورٹی کے مسائل کے علاوہ شام کی معیشت کو اسوقت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، اسکے 90 فیصد سے زیادہ باشندے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ملک کی تعمیر نو پر لاگت کا تخمینہ 250 سے 400 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام میں جاری تشدد، خاص طور پر مسلح گروہوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں امن و استحکام کے قیام کیلئے ایک جامع اور دیرپا حل کی ضرورت ہے۔ شام میں امن و استحکام کے قیام کیلئے بین الاقوامی کوششوں کو زیادہ سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہیئے، تاکہ مزید انسانی نقصانات کو روکا جا سکے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شامی حکومت کے زوال اور اس کے فوجی اور سکیورٹی ڈھانچے کے مکمل خاتمے کے سات ماہ بعد سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تشدد، جھڑپوں اور سکیورٹی کے عدم استحکام کے نتیجے میں 8000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی طرف سے جاری کردہ یہ اعداد و شمار ملک میں بدامنی اور تشدد کے جاری رہنے کی نشاندہی کرتے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جو اب بھی مسلح گروپوں کے کنٹرول میں ہیں۔ اس قسم کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والے انسانی نقصانات ملک میں انسانی بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی منگل کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق شام بھر میں 8 دسمبر 2024ء سے 7 جولائی 2025ء تک کم از کم 8,067 افراد بڑے پیمانے پر تشدد، قتل و غارت، مسلح تصادم اور سمری پھانسیوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

آبزرویٹری کے مطابق مرنے والوں میں 6,150 عام شہری تھے، جن میں 330 بچے اور 451 خواتین شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار واضح طور پر شام میں جاری افراتفری کے حوالے سے کمزور سماجی گروہوں کی انتہائی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ نئی فوجی دستوں کے زیر کنٹرول علاقے بھی فرقہ وارانہ تشدد، انتقامی قتل اور عدم تحفظ سے دوچار ہیں، جو ایک جمہوری، جامع اور پرامن شام کے قیام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور الجولانی کے اقتدار میں آنے کے بعد، اسرائیلی قابض افواج نے قنیطرہ اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے درمیان سرحدی پٹی کے ساتھ کئی کلومیٹر پیش قدمی کی اور مومونٹ کے کچھ حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اسرائیلی فوج نے قنیطرہ اور درعا صوبے کے مضافات میں بھی اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت، جس نے 1967ء سے شام کی گولان کی پہاڑیوں کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا تھا، بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سکیورٹی بفر زون بنانے اور جنوبی شام سے لاحق خطرات کو بے اثر کرنے کے بہانے قنیطیرہ کے صوبوں میں پیش قدمی کی ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ واشنگٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا ایک مقصد پہلے مرحلے میں شام میں نئے مقبوضہ علاقوں کی خود مختاری سے متعلق سکیورٹی معاہدے کو آگے بڑھانا اور پھر اس ملک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔

دوسری جانب جنوبی شام میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں توسیع اور گولان میں بفر زون پر اسرائیل کے کنٹرول کے باوجود جولانی 1974ء میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر زور دے رہا ہے۔ بہرحال سکیورٹی کے مسائل کے علاوہ شام کی معیشت کو اس وقت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، اس کے 90 فیصد سے زیادہ باشندے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ملک کی تعمیر نو پر لاگت کا تخمینہ 250 سے 400 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام میں جاری تشدد، خاص طور پر مسلح گروہوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ایک جامع اور دیرپا حل کی ضرورت ہے۔ شام میں امن و استحکام کے قیام کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو زیادہ سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہیئے، تاکہ مزید انسانی نقصانات کو روکا جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں امن و استحکام کے قیام

پڑھیں:

القاعدہ افریقی دارالحکومت کو کنٹرول کرنے کے قریب پہنچ گئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مالی کا دارالحکومت ’باماکو‘ محاصرے میں ہے ، ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق القاعدہ سے وابستہ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) مالی کے دارالحکومت باماکو پر کنٹرول کے قریب آگئی ہے۔ مغربی اور افریقی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ خطرناک پیش رفت مالی کو دنیا کا ایسا پہلا ملک بنا سکتی ہے جو امریکا کی طرف سے نامزد دہشت گرد تنظیم کے زیر انتظام ہے۔ عسکریت پسند گروپ کی یہ تیزی سے پیش قدمی افغانستان میں شدت پسند تحریکوں کے کئی فوائد کے بعد ہے۔ باماکو کا زوال، اگر ایسا ہوتا ہے، پہلا موقع ہو گا کہ القاعدہ سے براہ راست منسلک کسی گروپ نے کسی دار الحکومت پر کنٹرول حاصل کیا ہو۔ اس صورت حال سے بین الاقوامی سکیورٹی حلقوں میں بڑے پیمانے پر تشویش پھیل گئی ہے۔

کئی ہفتوں سے اس گروپ نے دارالحکومت کا شدید محاصرہ کر رکھا ہے۔ خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو روکا جا رہا ہے۔ خوراک کی شدید قلت ہے اور فوجی آپریشن تقریباً مکمل طور پر مفلوج ہو گئے ہیں۔ یورپی حکام نے تصدیق کی ہے کہ یہ گروپ براہ راست حملے کے بجائے سست گلا گھونٹنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی اور انسانی بحران کے دباؤ میں دارالحکومت بتدریج منہدم ہو جائے گا۔

فلاڈیلفیا میں فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق رافیل بارنس نے کہا کہ ہر وہ دن جو محاصرے کو اٹھائے بغیر گزرتا ہے باماکو کو مکمل تباہی کے قریب لاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جاری بحران فوج کی صلاحیتوں کو کمزور کر رہا ہے جو خود ایندھن اور گولہ بارود کی شدید قلت کا شکار ہے۔

جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) گروپ 2017 میں القاعدہ سے وابستہ کئی دھڑوں کے انضمام سے تشکیل دیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے بعد سے اس نے بنیادی تنظیم سے مکمل وفاداری کا عہد کیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل نے مغربی اور افریقی حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس کے جنگجوؤں کو افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کے رہنماؤں سے بم بنانے کی تربیت حاصل ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں دارالحکومت کی طرف جانے والے ایندھن کے قافلوں پر بار بار حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ باغیوں کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیوز کے مطابق ایک حالیہ واقعے میں مسلح افراد نے باماکو جانے والی سڑک پر درجنوں ٹرکوں پر حملہ کیا اور باقی پر قبضہ کرنے سے پہلے پہلے ٹرکوں کو آگ لگا دی۔ کاٹی کے قریبی قصبے میں تعینات فورسز ایندھن کی قلت کی وجہ سے مداخلت کرنے سے قاصر رہیں۔

ایندھن ملک میں تنازعات کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے۔ باماکو میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً 2000 سی ایف اے فرانک یا لگ بھگ 3.5 ڈالر تک تک پہنچ گئی ہے۔ یہ گزشتہ قیمت سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ مالی کے شہری ابراہیم سیس کے مطابق آج کسی بھی اسٹیشن پر ایندھن نہیں ہے، لوگ بے کار دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت نے دو ہفتوں کے لیے سکول اور یونیورسٹیاں اور کچھ پاور پلانٹس بند کر دیے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مالی کے وزیر اعظم عبدولے مائیگا نے ایک حیران کن بیان دیا تھا کہ چاہے ہمیں پیدل یا چمچ سے ایندھن تلاش کرنا پڑے ہم اسے تلاش کریں گے۔ مغربی افریقہ میں القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں مغربی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر نائجر، برکینا فاسو اور مالی جیسے ساحل ممالک میں القاعدہ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ عسکریت پسند گروپ زیادہ مستحکم خلیجی ممالک جیسے بینن، آئیوری کوسٹ، ٹوگو اور گھانا میں بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ انٹیلی جنس اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ مالی، جس کی آبادی 21 ملین ہے اور اس کا رقبہ کیلیفورنیا سے تین گنا زیادہ ہے، گروپ کے کنٹرول میں آنے والا پہلا ملک ہو سکتا ہے۔

یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ جہادی گروپ ایک طویل جنگ کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ یہ حکمت ععملی افغانستان اور شام میں کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ یہاں حکومتیں بغیر کسی فیصلہ کن جنگ کے اندر سے گر گئیں۔ گزشتہ جولائی میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جماعت نصر الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) کے رہنما کابل میں طالبان کے تجربے سے متاثر ہو رہے ہیں اور اسے حکومت پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے “روڈ میپ” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • صدرِ مملکت، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا خیبر پختونخوا میں کامیاب آپریشنز پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • ہنگو : پولیس کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ، ایس ایچ او سمیت 2 اہلکار زخمی
  • مودی ٹرمپ سے خوفزدہ ہیں اور انکا ریموٹ کنٹرول بڑے کاروباریوں کے ہاتھوں میں ہے، راہل گاندھی
  • ہنگو میں پولیس قافلے پر ریموٹ کنٹرول دھماکا، ایس ایچ او سمیت دو اہلکار زخمی
  • کراچی: ٹریفک کیمروں کی نگرانی کے دوران وائرل تصویروں پر ڈی آئی جی ٹریفک کا بیان آگیا
  • آزاد کشمیر میں سیاسی عدم استحکام جاری، پی پی نے تحریک عدم اعتماد تاحال جمع نہ کروائی
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا
  • خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی اور گورننس کے معاملات میں بہتری لائے؛ رانا ثناءاللہ
  • ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
  • القاعدہ افریقی دارالحکومت کو کنٹرول کرنے کے قریب پہنچ گئی