مناہل ملک کے ’لال پری‘ گانےپر ڈانس کی سوشل میڈیا پر دھوم
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)مشہور ٹک ٹاکر اور ماڈل مناہل ملک ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئیں،اس بار ان کا ’ لال پری‘ گانے پر کیا گیا ڈانس ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ویڈیو میں مناہل ملک کو سرخ لباس میں گانے کی دُھن پر دلکش انداز میں رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے، جو مداحوں کو بے حد بھایا۔
https://dailyausaf.com/wp-content/uploads/2025/05/minal-1.mp4
سوشل میڈیا صارفین نے مناہل کے رقص کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ نہ صرف ایک خوبصورت پرفارمنس تھی بلکہ اس نے گانے میں نئی جان ڈال دی“۔
خیال رہے کہ مناہل ملک پہلے بھی اپنے بولڈ انداز، فوٹوشوٹس اور متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہ چکی ہیں۔
9 مئی کیس میں بڑی پیش رفت، سزا یافتہ پی ٹی آئی ایم این اے کو فوری گرفتار کرنے کا حکم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مناہل ملک
پڑھیں:
نیت نہیں، نتیجہ دیکھو
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی نے جہاں دنیا کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی ابھرے ہیں۔ ان میں سے ایک سنگین مسئلہ گستاخانہ مواد کا پھیلائو ہے جو نہ صرف مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو بھی قانونی اور سماجی مسائل میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس کالم کا مقصد نوجوانوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنا اور انہیں اس سے بچائو کے طریقوں سے روشناس کروانا ہے۔گستاخانہ مواد وہ مواد ہے جو کسی مذہب، مذہبی شخصیت یا عقیدہ کی توہین یا تذلیل کرتا ہے۔ یہ مواد مختلف شکلوں میں ہوسکتا ہےجیسے کہ تحریری مواد، تصاویر، ویڈیوز یا میمز وغیرہ۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پراس قسم کے موادکا پھیلائو تیزی سے بڑھ رہا ہے جو نوجوانوں کے لیےایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چاربرسوں میں 23 ملزمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہےاور 500 کے قریب کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ، اس قسم کے مواد میں ملوث افراد کو سماجی سطح پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں پر اس قسم کے مقدمات کا نفسیاتی دبائو بھی ہوتا ہےجو ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)نے گستاخانہ اور غیراخلاقی مواد پر 100,183 گستاخانہ یو آر ایل اور 844,008 فحش ویب سائٹس بلاک کی ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نےسوشل میڈیا پلیٹ فارمزسےبھی گستاخانہ مواد ہٹانے کےلیے دبائو ڈالا ہے۔ حالیہ برسوں میں،وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کی سائبر کرائم ونگ نے 400,000 سے زائد سوشل میڈیا اکائونٹس کو گستاخانہ مواد پھیلانے کے الزام میں بے نقاب کیا ہے جن میں سے 160 افراد طلباء یافارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے 140 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے 11کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھی گستاخانہ مواد ہٹانے کے لئے دبائو ڈالا ہے۔
نوجوانوں کے لیےاس مسئلے سے بچائو کے لئے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ سب سے پہلے، انہیں مواد کی تصدیق کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کسی بھی مواد کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی حقیقت اورماخذ کی تصدیق کریں۔ اس کے علاوہ، انہیں قانونی آگاہی حاصل کرنی چاہیےتاکہ وہ انٹرنیٹ پر موجود قوانین سے آگاہ رہیں اور غیر ارادی طور پر کسی جرم کاارتکاب نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ، انہیں مثبت موادکو فروغ دیناچاہیے اور سوشل میڈیا پر مثبت اور تعمیری مواد شیئر کرنا چاہیے جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دے۔ گزشتہ دہائی میں جہاں ڈیجیٹل دنیا نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے وہیں اس تیز رفتار ترسیل اور آزاد اظہارِ رائے نے کئی سماجی، مذہبی اور اخلاقی پہلوئوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انٹرنیٹ، خصوصاً سوشل میڈیا، ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ہر قسم کی معلومات چاہے وہ درست ہوں یا گمراہ کن چند لمحوں میں دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ اکثر نوجوان لاعلمی، جذباتیت یا محض ’’وائرل‘‘مواد شیئر کرنے کی خواہش میں وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس کے نتائج ان کی زندگی کو برباد کر سکتے ہیں۔ وہ جانے انجانے میں ایسے ویڈیوز، تصاویر، تبصرے یا پوسٹس شیئر کر دیتے ہیں جنہیں پاکستان کے آئین، مذہبی اقدار اور سماجی روایتیں توہین سمجھتے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں توہینِ مذہب ایک نہایت حساس موضوع ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر اس پر سخت ترین سزائیں موجود ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295، 295-A، 295-B اور 295-C کے تحت ایسے جرائم پر عمر قید، سزائے موت یا جرمانے جیسے سخت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ان دفعات کا اطلاق صرف مذہبِ اسلام پر ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے احترام پر ہوتا ہے لیکن عملی طور پر زیادہ تر کیسز اسلام کے مقدس شعائر سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتیں جب ایسے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں تو وہ قانون کے ہر پہلو پر باریک بینی سے غور کرتی ہیں، لیکن عوامی ردِ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ کئی بار مقدمہ چلنے سے پہلے ہی فیصلے سڑکوں پر ہو جاتے ہیں۔نوجوانوں کے لئے اس ماحول میں ایک باخبر، ذمہ دار اور محتاط شہری بننا نہایت ضروری ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈیجیٹل دنیا کی ہر ’’شیئر‘‘اور ہر ’’لائیک‘‘صرف ایک بٹن دبانے کا عمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے نتائج کی ایک پوری دنیا ہے۔ اگر کوئی نوجوان کسی بھی توہین آمیز ویڈیو کو بغیر سوچے سمجھے صرف ’’دلچسپی‘‘ یا’’مزاح‘‘کے جذبے سے شیئر کرتا ہے تو وہ قانونی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ایسے درجنوں کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں نوجوانوں نے لاعلمی میں گستاخانہ پوسٹس شیئر کیں اور بعدازاں نہ صرف ان کی گرفتاری ہوئی بلکہ ان کی زندگی کے کئی قیمتی سال جیل میں گزرے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق، گستاخانہ مواد سے متعلق تقریبا چارلاکھ سوشل میڈیا اکائونٹس کی نگرانی کی گئی، جن میں سینکڑوں نوجوانوں کو شامل تفتیش کیا گیا۔ ان میں سے کئی طالبعلم تھے جو نہایت ذہین اور باصلاحیت تھے، لیکن صرف ایک غلطی ان کے مستقبل کو داغدار کر گئی۔ ایسے واقعات نہ صرف انفرادی سانحہ ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں خوف، تشویش اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دیتے ہیں۔یہاں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں، ان سے کھل کر بات کریں، انہیں بتائیں کہ آزادی اظہار رائے اور مذہبی اقدار کے درمیان ایک نازک توازن ہوتا ہے۔ محض اظہارِ رائے کے نام پر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ تعلیمی ادارے خاص طور پر اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہاں اس موضوع پر لیکچرز، سیمینارز، ورکشاپس اور مباحثے ہونے چاہئیں، تاکہ طلبہ و طالبات کو یہ شعور دیا جا سکے کہ ڈیجیٹل دنیا میں ہر قدم سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت اٹھانا ضروری ہے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے موثر روابط قائم رکھے تاکہ گستاخانہ مواد کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہو۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ایسے مواد کو ہٹایا ہے، لیکن یہ عمل تیز اور مربوط ہونا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی صرف سزا دینے کے بجائے آگاہی، تربیت اور بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو صرف مجرم کے طور پر نہیں بلکہ اصلاح کے قابل شہری کے طور پر دیکھنا چاہیے۔