قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، راغب نعیمی
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے، جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ قربانی کا جانور حلال کی کمائی سے خریدا جائے، سنت ابراہیمی کا بنیادی مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں قربانی کا اہتمام فرمایا اور اپنی اُمت کو بھی اس کی تاکید فرمائی، ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے، جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقیناً وہ بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اسلام کی دو عیدوں میں ایک عیدالاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالم اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ عید الاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی تھی۔ قربانی کی قبولیت میں جو چیز کار فرما ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر ہو تو وہ اگرچہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رضا کا حصول اللہ تعالی قربانی کا
پڑھیں:
یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
بارش ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا سیلاب، ایک نام ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں سب سے پہلے آتا ہے — پاک آرمی۔
حالیہ دنوں میں شدید بارشوں کے بعد جب شہروں کی گلیاں دریا بن گئیں، جب چھتیں گرنے لگیں، جب خاندان پانی میں محصور ہو گئے، اور جب حکومت کی سول مشینری ہنگامی ردعمل میں سست دکھائی دی، تو یہی وردی پوش جوان تھے جو بغیر کسی تردد کے پانی میں اتر گئے۔
کسی کے بچے کو کندھے پر اٹھا کر محفوظ مقام تک لے جایا، تو کسی بیمار بزرگ کو بانہوں میں اٹھایا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر سلبریٹیز کے فیشن شوز، سیاستدانوں کے بیانات، اور یوٹیوبرز کے جگتیں تو وائرل ہو جاتی ہیں، مگر جو جوان کیچڑ میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا ہے، جو ہیلی کاپٹر سے راشن نیچے پھینک رہا ہے، یا جو سیلابی پانی سے دو معصوم بچیوں کو بچا رہا ہے۔
اس کا نام کوئی نہیں لیتا، اس کی تصویر کوئی پوسٹ نہیں کرتا، اس کا شکریہ کوئی ادا نہیں کرتا۔
یہ کیوں ہے؟کیا ہمیں پاک فوج سے کوئی شکایت ہے؟ شاید ہوگی، سیاسی حوالوں سے، پالیسیوں سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر کیا ان سپاہیوں کا کوئی قصور ہے جو آپ کی گلی میں بغیر کسی معاوضے، بغیر کسی مطالبے، صرف فرض کی ادائیگی کے لیے اترے ہیں؟
یہ وہی فوج ہے جس کے جوان کو آپ نام سے نہیں جانتے، مگر وہ آپ کی ماں کو اٹھا کر اسپتال پہنچاتا ہے۔ یہ وہی فوج ہے جس کے پائلٹ نے سیلاب زدہ علاقے میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچوں کو بچایا اور بدلے میں اسے کوئی ایوارڈ نہیں، صرف ایک دھندلا سا شکریہ۔
ہم اکثر مغرب کی افواج کو فلموں میں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔ مگر یہاں ہمارے درمیان وہ اصل ہیرو موجود ہیں جن پر کوئی فلم نہیں بنتی، کوئی ناول نہیں لکھا جاتا، اور کوئی قومی ترانہ ان کے لیے مخصوص نہیں ہوتا ، مگر وہ پھر بھی اپنے فرض کی راہ سے نہیں ہٹتے۔
پاک فوج کے ان گمنام ہیروز کو ہمارا سلام!انہیں صرف نعرے کی نہیں، بلکہ عمل کی سطح پر عوامی قدر کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی کاوشوں کو اجاگر کریں، میڈیا پر سراہیں، ان کے انٹرویوز لیں، ان کی خدمات کو قومی بیانیے میں جگہ دیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں