چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے، جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ قربانی کا جانور حلال کی کمائی سے خریدا جائے، سنت ابراہیمی کا بنیادی مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں قربانی کا اہتمام فرمایا اور اپنی اُمت کو بھی اس کی تاکید فرمائی، ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں، سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے، جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو۔
 
انہوں نے کہا کہ قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقیناً وہ بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اسلام کی دو عیدوں میں ایک عیدالاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالم اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ عید الاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی تھی۔ قربانی کی قبولیت میں جو چیز کار فرما ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے۔ عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر ہو تو وہ اگرچہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رضا کا حصول اللہ تعالی قربانی کا

پڑھیں:

چین کا ترقیاتی ماڈل مشرق کی نئی پہچان

تحریر: نعیم اختر

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں 27 مئی 2025 کو منعقد ہونے والا پہلا آسیان-چین-جی سی سی سربراہی اجلاس ایک ایسے تاریخی لمحے کے طور پر سامنے آیا ہے جو ایشیا اور خلیج کے درمیان تعاون کی ایک نئی داستان رقم کر رہا ہے، اس اجلاس نے نہ صرف عالمی سفارتی افق پر چین کے ترقیاتی وژن کو اجاگر کیابلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ اب عالمی ترقی کا مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے،یہ اجلاس کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا دنیا کی تین اہم معاشی اور جغرافیائی اکائیاں — آسیان، چین اور خلیج تعاون کونسل — پہلی مرتبہ ایک ہی میز پر باقاعدہ شریک ہوئیں،چین نے ایک فعال شراکت دار کے طور پر اس اجلاس میں نہ صرف میزبانی میں حصہ لیا بلکہ اپنی پالیسی، وژن اور عملی تجاویز کے ذریعے اجلاس کی روح رواں ثابت ہوا،

 

چین کے وزیراعظم لی چھیانگ نے اپنی تقریر میں جس بصیرت کا مظاہرہ کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اب ترقیاتی سفارت کاری میں قیادت کے مقام پر فائز ہو چکا ہے، ان کے پیش کردہ تین مثالی ماڈلز — بین العلاقائی کھلے پن، ترقیاتی مراحل کی ہم آہنگی، اور ثقافتی انضمام — نہ صرف اجلاس کا لب لباب تھے بلکہ مستقبل کے علاقائی تعاون کی سمت بھی طے کرتے ہیں،اجلاس کا تھیم ’’مواقع کی مشترکہ تخلیق اور خوشحالی کی مشترکہ تقسیم‘‘ چین کے اس اصولی موقف کا عکاس ہے کہ ترقی کا فائدہ سب کو یکساں ملنا چاہیے، اور تعاون جیت-جیت (Win-Win) بنیاد پر ہونا چاہیے،چین، خلیج اور آسیان کے درمیان معاشی، ثقافتی اور تزویراتی ہم آہنگی اپنی نوعیت کی منفرد مثال بن چکی ہے۔ آسیان کے پاس نوجوان افرادی قوت اور قدرتی وسائل ہیں، خلیج کے پاس توانائی اور سرمایہ ہے اور چین کے پاس ٹیکنالوجی، صنعتی مہارت اور ایک وسیع و عریض کھلی مارکیٹ یہ تکمیلی خصوصیات ایک ایسے معاشی اتحاد کی تشکیل کر رہی ہیں جو مستقبل میں نہ صرف خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے بلکہ عالمی اقتصادی منظرنامے کو بھی نئے سانچے میں ڈھال سکتا ہے،

 

یہ سہ فریقی اجلاس دراصل چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو ایک نئی روح فراہم کرتا ہے، جب بیلٹ اینڈ روڈ، آسیان کا کنیکٹیویٹی ماسٹر پلان اور جی سی سی کا وژن 2030 ایک ہی فریم ورک میں آتے ہیں، تو وہ نہ صرف انفراسٹرکچر کی ترقی کو مہمیز دیتے ہیں بلکہ لوگوں، مصنوعات، سرمایہ اور خیالات کی آزادانہ نقل و حرکت کو بھی فروغ دیتے ہیں،یہ ماڈل ترقی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہے جو مغربی طاقتوں کے سخت شرائط والے ماڈلز کے برعکس برابری، خودمختاری اور شراکت داری کے اصولوں پر مبنی ہے،صرف خلیج اور آسیان ہی نہیں، بلکہ چین بحرالکاہلی جزیرہ ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو ایک نئے اسٹریٹجک دور میں داخل کر چکا ہے۔ 28 مئی کو شیا من شہر میں ہونے والا ’’چین-بحرالکاہل وزرائے خارجہ اجلاس ‘‘اس بات کا غماز تھا کہ چین ان چھوٹے جزیرہ ممالک کو بھی ترقی کے سفر میں برابر شریک کرنا چاہتا ہے،

 

چین نہ صرف انہیں بنیادی ڈھانچے، طبی سہولیات اور تعلیم میں مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی جیسے وجودی خطرات کے خلاف بھی مشترکہ تحقیق اور فنڈنگ کے ذریعے ان کا ساتھ دے رہا ہے، یہ ایک مثال ہے کہ چین صرف ’’سپر پاور‘‘بننے کی دوڑ میں نہیں بلکہ ایک ذمہ دار عالمی رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے،بحرالکاہلی خطے میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی کو دیکھتے ہوئے چین اپنی’’ڈیجیٹل سلک روڈ‘‘ کے تحت فائبر آپٹک کیبلز، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سمارٹ سسٹمز متعارف کرا رہا ہے، اس سے جہاں مقامی معیشتیں مستحکم ہوں گی وہیں چین کو ایک جدید تکنیکی شراکت دار کے طور پر پہچانا جائے گا،چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی پر اپنی شرائط مسلط نہیں کرتاوہ مقامی روایات، ترجیحات اور ترقیاتی حکمت عملیوں کا مکمل احترام کرتا ہے، یہ رویہ ان تمام ممالک کے لیے امید کی کرن ہے جنہیں ماضی میں قرضوں، امداد یا اتحادوں کے نام پر اپنی خودمختاری قربان کرنی پڑی،آج جب دنیا معاشی کساد بازاری، جغرافیائی کشیدگیوں اور ماحولیاتی بحرانوں سے نبرد آزما ہے، چین کا یہ وژن ایک متبادل راستہ فراہم کرتا ہے،یہ راستہ مفاہمت، شراکت داری، اور مشترکہ خوشحالی پر مبنی ہے،

 

چین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عالمی طاقت بننے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ عسکری اتحاد قائم کریںیا دوسرے ممالک پر اپنی بالا دستی قائم کریںترقی اور امن کا نیا چہرہ وہی ہے جو چین نے پیش کیا ہے — باہمی احترام، مساوات، اور عملی تعاون پر مبنی یہ نیا باب صرف چین کی کامیابی نہیںبلکہ گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک امیدایک راستہ اور ایک وژن ہے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • پشاور میں قربانی کیلیے لایا گیا بیل نالے میں گر گیا
  • اسلامی ممالک کا نیا بلاک بننے جا رہا ہے، علامہ راغب نعیمی
  • چین کا ترقیاتی ماڈل مشرق کی نئی پہچان
  • اس شدید گرمی میں قربانی کا جانور کون سی تاریخ سے خریدیں؟
  • پنجاب میں جانوروں کے سری پائے جلانے پر دفعہ 144 نافذ
  •  پنجاب میں دفعہ 144 نافذ, عید سے قبل سخت پابندیاں
  • ٹرمپ کی طرف سے ’شاندار‘ ایلون مسک کو الوداع
  • قربانی کی فضیلت
  • عشرہ ذوالحجہ: فضیلت و اہمیت