احتجاج سے متعلق درج مقدمات، پی ٹی آئی قیادت اور وکلا نے ورکرز کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
احتجاج سے متعلق درج مقدمات، پی ٹی آئی قیادت اور وکلا نے ورکرز کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 31 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کیخلاف 26 نومبراحتجاج پر درج مقدمات کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی قیادت اور وکلا نے ورکرز کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی بھی وکیل ورکرز کے کیسز میں پیش نہ ہوا، عدالت نے 26 نومبر احتجاج کے 2 مقدمات میں اسٹیٹ کونسل مقرر کردیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ احمد شہزاد گوندل نے کیس پر سماعت کی، عدالت نے کہا کہ اگر کوئی وکیل پیش ہوتا ہے تو اسکی جانب سے جرح ہی نہیں کی جاتی۔احتجاج کے مقدمہ نمبر 976 میں کفایت اللہ ایڈووکیٹ اسٹیٹ کونسل مقرر کردیے گئے، اسٹیٹ کونسل نے استغاثہ کے 6 گواہان پر جرح مکمل کر لی۔ کیس کی اگلی سماعت پر تفتیشی افسر اور اسسٹنٹ کمشنر پر جرح ہوگی، مقدمہ میں نامزد ملزم عثمان علی کی بریت کی درخواست خارج کردی گئی۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر محمد عثمان رانا نے سرکار کی نمائندگی کی اور مقف اپنایا کہ ملزم سے ریکوری بھی ہوئی ہے اور ملزم عثمان علی کی درست طور پر شناخت پریڈ بھی ہوئی، ملزم کی درخواست خارج کی جائے۔عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم عثمان علی کی درخواست خارج کر دی۔عدالت نے کہا کہ ملزم اگلی تاریخ پر ہر صورت جرح کرے، عدالت نے دونوں کیسز کی سماعت 2 جون تک ملتوی کردی۔پی ٹی آئی کارکنان کیخلاف تھانہ رمنا میں 2 مقدمات درج ہیں، پی ٹی آئی کارکنان کیخلاف دونوں مقدمات پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آڈر ایکٹ کے تحت درج ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کا اثر و رسوخ بڑھانے کیلیے افغان شہریوں کیلیے نیا ویزا سسٹم متعارف بھارت کا اثر و رسوخ بڑھانے کیلیے افغان شہریوں کیلیے نیا ویزا سسٹم متعارف بھارت کا فرانسیسی آڈیٹرز کو رافیل طیاروں تک رسائی دینے سے انکار ،مقصد خراب کارکردگی سے بچنا ہے:امریکی جریدے کی رپورٹ حکومت پر اعتماد کرنے والے شہریوں میں نمایاں ترین اضافہ،سروے رپورٹ جاری وزیراعظم کی طرف سے اعلان کردہ بجلی کے فی یونٹ 7.41روپے کمی کا اسپیشل ریلیف اب بھی برقرار ایف بی آر کا مئی میں 206 ارب روپے کا ٹیکس شارٹ فال؛ سالانہ ہدف چیلنج بن گیا عمران خان کا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔