فکر و خیال کا جاں سوز شاعر، شہزاد نیئر
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
دورِحاضر میں بہت سے شعرائے کرام اپنے نام اور مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں مگر ان شعراء میں شہزاد نیئرکا نام بھی شاملہے جنھیں ایک مقبول ترین شاعر تصورکرنے کے ساتھ ساتھ انھیں جدید اردو نظم و غزل کے طور پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کی مقبولیت کا سبب ان کی غنائیت اور روانی سے بھرپور شاعری ہے، وہ اپنی شاعری میں منفرد اسلوب، زبان و بیان کے درست برتاؤ، علامتوں اور استعاروں میں پوشیدہ معانی تک رسائی کا راستہ وہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے خود تشکیل کرتے ہیں، وہ روز مرہ زندگی میں بدلتے ہوئے حالات پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے ان کی شاعری میں کھٹے اور میٹھے دونوں طرح کے ذائقے ملتے ہیں، وہ گردشِ دوراں کے ستائے جانے پر بھی کسی کی پروا کیے بے ساختہ کہہ اُٹھتا ہے کہ:
دم بہ دم گردشِ دوراں کا گھمایا ہُوا شخص
ایک دن حشراٹھاتا ہے گرایا ہُوا شخص
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہُوا شخص
شہزاد نیئر کی احوالِ زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے 1973 میں گوجرانوالہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ایم فل ابلاغیات کے علاوہ ایم اے اُردو اور فارسی ادب میں ڈپلوما کر رکھا ہے،جب کہ وہ پاک آرمی میں بطور آفیسر (میجر) کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
کتابوں کے مطالعے کا انھیں بچپن سے ہی شوق تھا۔ وہ میری نظر میں ایک صاحبِ مطالعہ آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ عروض دان بھی ہے۔ وہ شعر تو خود کہتے ہی تھے مگر ان کے اوزان کے لیے انھیں گوجرانوالہ کی دو اہم شخصیات ماجد الباقری اور جان کاشمیری سے سیکھنے کا موقعہ میسر آیا۔ مگر نثر میں وہ اسلم سراج الدین کے معترف تھے۔ ان کا پہلا نظم کا مجموعہ ’’برفاب‘‘ ہے۔ وہ جو خواب دیکھتا ہے اُسے کسی سے بیان نہیں کرتا بلکہ جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اُسے اپنے الفاظ میں یوں ڈھال دیتا ہے کہ:
جیسے دیکھا ہے، دکھایا بھی نہیں جا سکتا
خواب کا حال سنایا بھی نہیں جا سکتا
شہزاد نیئر نہ صرف ایک اچھا شاعر ہے بلکہ بہت باکمال انسان بھی ہے۔ وہ دوسروں کا خدمتگار اور غمخوار بھی ہے۔ وہ اکثر دوستوں سے جب ملتا ہے تو اُس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سی ہوتی ہے جو اُس کے اندر سمیٹے ہوئے دوسروں کے غم اور دُکھ ظاہر نہیں ہونے دیتی،کیونکہ غم کے اظہار میں ان کے ہاں ایک خاص سلیقہ اور ضبط کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
اپنے آپ کو ضبط کی حدوں میں رکھنے، جذبے کو سنبھالنے تخلیقی طور پر اس کی پرورش اور تہذیب کرنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ اسی لیے ان کی غزلیں اور نظمیں خاص جذبے کی شاعری ہے۔ اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ’’ شہزاد نیئر نوجوان شاعر ہیں مگر نوجوانی ہی میں انھوں نے اپنی تخلیقی توانائیوں کا لوہا منوا لیا ہے۔
وہ دونوں اصنافِ شعر، نظم اور غزل کو سلیقے سے برتتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اُن کا جوہر بیشتر اُن کی نظموں میں کھلتا ہے۔ وہ اپنے آس پاس کی صورتِ حال کا مطالعہ بہت ذہانت اور ذکاوت کے ساتھ کرتے ہیں اور اس مطالعے کے فن کارانہ اظہار میں کوئی بھی مصلحت، ان کی مزاحم نہیں ہوتی۔
چنانچہ ان کی شاعری کا نمایاں تاثر صداقت اور حقیقت ہے۔ وہ خواب بھی بھی یقینا دیکھتے ہیں مگر ان خوابوں کو بھی ماورائیت کے سمندر میں ڈوبنے سے بچائے رکھتے ہیں اور یہ بڑی بات ہے۔‘‘ ’’برفاب‘‘ شہزاد نیئرکا پہلا شعری مجموعہ ہے، جوآزاد نظموں پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب میں ’’خاک‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم بھی شامل ہیں۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ چاک سے اُترے وجود‘‘ جو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہیں۔
جسے 2009میں پروین شاکر عکسِ خوشبو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔’’ چاک سے اُترے ہوئے وجود‘‘ کا یہ شاعر اپنی بات کو بڑی سادگی اور خموشی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں۔’’ خوابشار‘‘ یہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے، جس کا مطالعہ کرتے ہوئے دھیان ایک پل کو بھی ادھر سے اُدھر نہیں ہوتا بس دل چاہتا ہے کہ شہزاد نیئرکی غزلوں کو پڑھتے ہی چلے جائے اور اگر دھیان اُٹھ بھی جائے تو دل کا موسم اُداس ہونے میں دیر نہیں لگتی، وہ ایک محبت پرور انسان ہے۔
محبت کرنا اور محبت کرکے نبھانا خوب جانتے ہیں۔ وہ دوست اور دشمن کے درمیان فرق کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ ایک فوجی آفیسر ہونے کے ناتے ان کا واسطہ ہر طبقہ فکرکے لوگوں سے پڑتا ہے، اس لیے ان میں دوسروں کو پرکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں کہ:
اتنی نہ اپنے نام کی ہر سو دہائی دے
جتنا تجھے میں سُن سکوں اُتنا سنائی دے
شہزاد نیئر کا چوتھا شعری مجموعہ’’ گِرہ کُھلنے تک‘‘ ہے۔ یہ بھی آزاد نظموں پر مشتمل ہیں، جس کے مطالعے کے دوران انھیں بار بار ٹھہر ٹھہر کر ان کی نظموں کو پڑھنے کا لطف آتا ہے۔ ان کی نظموں میں بھی غزلوں کی طرح کلاسیکی اور لفظوں کی روانی اور زبان کی نغمگی واضح دکھائی دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے اس کتاب میں شامل نظمیں اپنے بے باک بیانیے، جدید تر موضوعات کے اعتبار سے ان کے فکر و اسلوب کی ندرت کے باعث عصری اُردو نظم میں نہایت اہم سمجھی جاتی ہیں۔ شہزاد نیئر کا شمار بھی ایسے ہی باکمال سخنوروں میں ہوتا ہے جنھیں شاعری کے ساتھ ساتھ عمدہ نثر نگار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، جب کہ انھیں ترجمہ نگاری میں بھی کمال کا ملکہ حاصل ہے۔
’’ اور ڈان بہتا رہا‘‘and quiet flows the dow میخائیل شولو خوف جس کے مترجم مخمور جالندھری ہے جب کہ اس خوبصورت ناول کی نظرثانی کا فریضہ شہزاد نیئر نے ادا کیا۔ جسے پاکستان کے علاوہ بیرونِ ممالک میں اتنی پذیرائی ملی کہ اس ناول کو نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس شہرہ آفاق ناول کی خاص خوبی کے حوالے سے شہزاد نیئر بتاتے ہیں کہ’’ پہلی عالمی جنگ 1918/1914 اور بالشویک انقلاب 1917 کے تفصیلی ادبی بیان نے اس ناول کو بے حد اہم بنا دیا ہے۔ مصنف نے انقلاب کے حالات اورکرداروں کی جس طرح لفظی تصویر کشی کی ہے وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘’’ کامیابی کے لیے صرف نمبر نہیں کافی‘‘ یہ ان کی دوسری کتاب ہے جس کا انھوں نے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔
جس کے مصنف رابرٹ ٹی کیوسکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری اور شخصیت پرکئی جامعات میں تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں، ان پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل بھی ہو چکا ہے، جب کہ وہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔
ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں پاکستان کے برسوں سے شایع ہونے والے ادبی مجلہ ادبِ لطیف کا معاون مدیر بنا دیا گیا ہے۔ آخر میں بتاتا چلوں کہ میری شہزاد نیئر سے شناسائی بہت پرانی ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات راسخ عرفانی کے چھوٹے بھائی ثاقب عرفانی کے سالانہ مشاعرہ میں ہوئی۔ بہرحال شہزاد نیئر کی شاعری، فن و شخصیت اور موضوعات کو ایک مضمون میں قلمبند کرنا یقینا ناممکن ہوگا۔ آخر میں ان کے زبان زدِ عام دو اشعارکے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
اُسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے
……
آپ دل جوئی کی زحمت نہ اُٹھائیں، جائیں
رو کے بیٹھا ہوں نہ اب اور رُلائیں، جائیں
زندگی! تو نے دکاں کھول کے لکھ رکھا ہے
اپنے حصے کا کوئی رنج اُٹھائیں، جائیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی شاعری انھوں نے کے علاوہ کے ساتھ میں بھی اپنے ا
پڑھیں:
میری زندگی، میری مرضی؛ علیزے شاہ کا مختصر لباس پہننے پر جواب
اپنے بے باک خیالات اور لباس کے انتخاب کے لیے مشہور ابھرتی ہوئی ماڈل اور اداکارہ علیزے شاہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔
انسٹاگرام پر 43 لاکھ فالوورز رکھنے والی علیزے شاہ کو اپنے مختلف لائف اسٹائل اور بے باک انداز کے باعث اکثر تنقید کا سامنا رہتا ہے۔
علیزے شاہ نے مختصر لباس پہنی ہوئی تصاویر پر تنقید کرنے والو کو جواب دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ میں بچپن سے بغیر آستینوں والے کپڑے، شارٹس اور اسکرٹس پہنتی آئی ہوں۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ میری ماں نے مجھے کبھی دقیانوسی خیالات میں قید نہیں کیا۔ انہوں نے میری محبت کے ساتھ پرورش کی، پابندیوں کے ساتھ نہیں۔
علیزے شاہ نے کہا کہ یہ صرف لباس کی بات نہیں، بلکہ کنٹرول کی بات ہے۔ لوگ صرف اس لیے تکلیف میں ہیں کہ میں پر اعتماد ہوں؟ میں کسی کی قبولیت کی محتاج نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ میری زندگی، میری مرضی ہے۔ جو لوگ دوسروں پر فتوے لگاتے ہیں، انہیں اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے۔
اداکارہ و ماڈل علیزے شاہ نے قرآن کی آیت "دین میں کوئی زبردستی نہیں" (البقرہ 256) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی خاتون کو برقع پہننے یا اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کرنا اسلام نہیں سکھاتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہر انسان صرف اللہ کو جوابدہ ہے، عوام کو نہیں۔
علیزے شاہ کی اس پوسٹ پر جہاں کئی لوگوں نے ان کے خیالات کو سراہا، وہیں کچھ صارفین نے سخت تنقید کی۔