ایران کی ملٹری ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں، ایرانی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کو سیاسی اور جانبدار قرار دے دیا۔
عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران نے یورینئیم کی 60 فیصد افزودہ پیدا وار میں تیزی سے اضافہ کیا ہے اور ادارے سے تعاون کو اطمینان بخش سے کم قرار دیا ہے۔
ایران واحد غیر ایٹمی طاقت ہے جو اس سطح پر افزودگی کر رہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے آئی اے ای اے کی رپورٹ پر شدید احتجاج کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران کے ملٹری ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس ضمن میں ایران کی تمام تر سرگرمیان آئی اے ای اے کی زیر نگرانی اور مکمل شفاف ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پُرامن مقاصد کے لیے نیوکلیئر توانائی داخلی سطح پر تیار کرنے پر کوئی عالمی پابندی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران کی کوئی ایسی تنصیب یا سرگرمی نہیں جو ظاہر نہ کی گئی ہو۔
واضح رہے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران نے افزودہ یورینیئم کے ذخیرے میں اضافہ کرلیا ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار سطح کے قریب ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایرانی وزارت خارجہ کی رپورٹ
پڑھیں:
IAEA کی ایران مخالف رپورٹ پر نتین یاہو کا خیرمقدم
اپنے ایک بیان میں سید عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانا چاہتا تو اب تک بنا چکا ہوتا۔ کیونکہ ہم اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ہمارا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی وزیر اعظم "نتین یاہو" کے دفتر نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی ایران کے خلاف نئی رپورٹ پر رد عمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن نہیں اور تہران اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو مکمل کرنے پر بضد ہے۔ حالانکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف دُہائی دینے والا نتین یاہو خود غزہ میں اپنے مظالم کی وجہ سے بین الاقوامی کرمنل کورٹ (ICC) سے سزا یافتہ ہے۔ نتین یاہو کے جنگی جرائم و نسل کش اقدامات نے اس کے مغربی اتحادیوں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں یہی کردار اپنے بیان میں عالمی برادری سے فوری طور پر ایران کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ نتین یاہو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یورینیم کی افزودگی کی وہ سطح جو ایران نے حاصل کی ہے، صرف ان ممالک میں پائی جاتی ہے جو فعال طور پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا کوئی غیر عسکری جواز نہیں۔
واضح رہے کہ یہ بیان بازیاں ایسی صورت حال میں سامنے آ رہی ہیں جب امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات جاری ہیں۔ یہ بیانات ایران پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش نظر آتے ہیں تا کہ ایران یورینیم کی عدم افزودگی کے امریکی مطالبے کو تسلیم کر لے۔ تاہم ایران نے بارہا اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ یورینیم کی افزودگی سمیت ہمارا پُرامن جوہری پروگرام جاری رہے گا۔ ایران نے واضح کیا کہ یہ مسئلہ کسی مذاکره یا سمجھوتے کا موضوع نہیں۔ ایران اپنے یورینیم کی افزودگی کے جائز حق پر سختی سے قائم ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں سینئر مذاکرات کار و وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے حال ہی میں واضح کیا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانا چاہتا تو اب تک بنا چکا ہوتا۔ کیونکہ ہم اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ہمارا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں۔ کیونکہ رہبر معظم انقلاب کا فتوٰی ہے کہ یہ ہتھیار حرام ہیں۔ نیز ہماری سکیورٹی پالیسی میں جوہری ہتھیاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔