اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔" تحریر: علی احمدی
ان دنوں ایران سے جوہری مذاکرات کے بارے میں جو موقف واشنگٹن کی جانب سے سامنے آ رہا ہے وہ حقیقت سے تناسب رکھنے کی بجائے امریکہ کے جواری صدر کی خام خیالی سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ ایسے وقت جب امریکی ذرائع ابلاغ عنقریب معاہدہ طے پا جانے کے امکان کا دعوی کر کے ایرانی مذاکراتی ٹیم پر دباو بڑھا رہے ہیں، دونوں ممالک کے حکام کے بیانات اور مغربی ذرائع ابلاغ کے تجزیات سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے اس حساس ایشو کے بارے میں اتفاق رائے بہت دور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا پر تازہ ترین بیان میں یہ دعوی کیا ہے کہ معاہدہ بہت قریب ہے۔ البتہ اس نے مطلوبہ معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا معاہدہ جس کے تحت امریکی انسپکٹرز جس چیز کو چاہیں ضبط کر لیں اور امریکہ جس مرکز کو چاہے تباہ کر دے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں رائے عامہ کنٹرول کرنے کے مقدمات طے پا رہے ہیں۔
مذاکرات کے بارے میں امریکی خواب
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر واشنگٹن کا روایتی موقف دہراتے ہوئے کہا: "ایران مذاکرات کی میز پر ہے اور مذاکرات آگے بڑھے ہیں، ہم ہر نشست میں آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔" امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات آگے بڑھنے کی باتیں ایسے وقت کی جا رہی ہیں جب امریکہ اب بھی ممکنہ معاہدے میں مزید مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسا کہ وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ "یورینیم افزودگی کا مکمل تعطل" اور بلوم برگ کی رپورٹ میں حتی "انسپکشن، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر جوہری تنصیبات کا انہدام" ایسے ناجائز مطالبات اور توقعات ہیں جن کا خواب امریکی حکمران دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر نے حال ہی میں اپنی تقریر میں کہا: "میرا خیال ہے کہ ایران کے بارے میں اچھی خبریں ملیں گی، حقیقی اور سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔"
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔"
امریکہ کے ناجائز مطالبات پر ایران کا ردعمل
عنقریب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ طے پانے پر مبنی قیاس آرائیوں کے بارے میں ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم واقعی ایسی پوزیشن پر ہیں جن کے بارے میں کچھ میڈیا ذرائع اظہار خیال کر رہے ہیں۔ ایران پوری سچائی سے ایسے سفارتی راہ حل کی تلاش میں ہے جو دونوں فریقین کے مفادات یقینی بنا سکے لیکن اس کے لیے ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ایران پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں اور ایران کے جوہری حقوق، جن میں یورینیم افزودگی بھی شامل ہے، اسے مل سکیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "معاہدے کا راستہ مذاکرات کی میز سے گزرتا ہے نہ میڈیا ذرائع سے۔" رہبر معظم انقلاب کے مشیر علی شمخانی نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں پر کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کا انہدام وہ خواب ہے جو گذشتہ امریکی صدور بھی دیکھتے رہے ہیں۔
بلیم گیم، مستقبل کے لیے امریکی منصوبہ؟
امریکی حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر متضاد موقف سامنے آنے کے بعد سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی معاہدے کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ایک ایسا منصوبہ ہے جو بلیم گیم پر مشتمل ہے۔ یعنی اگر تو کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دے گا لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو امریکی حکام اس کی تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈال دیں گے اور ایران کو قصور وار ٹھہرانے لگیں گے۔ ان کا بہانہ یہ ہو گا کہ ایران نے یورینیم افزودگی کا مکمل خاتمہ یا امریکی انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی جیسے مطالبات نہ مان کر مذاکرات ناکام بنا دیے ہیں۔ اگرچہ مسقط اور روم میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی پانچ نشستیں منعقد ہوئی ہیں لیکن ان کا نتیجہ خیز ثابت ہونا یقینی نہیں ہے۔
بالواسطہ مذاکرات کے انعقاد سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق باہمی گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے ناقابل قبول مطالبات اور شرائط ٹھونسنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کی بجائے دھمکی آمیز سفارتکاری میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بارہا اعلان کر چکا ہے کہ معاہدے کا حصول ممکن ہے لیکن ہر قیمت پر نہیں، بلکہ صرف اس صورت میں جب "تمام پابندیاں ختم ہوں گی اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کیا جائے گا"۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی بات کرنا اور تہران کے مطالبات کو یکسر طور پر نظرانداز کر دینا مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی جانب لے جائے گا۔ اسی طرح بہت سے ماہرین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ کیا امریکی حکمران میڈیا ذرائع پر دھمکی آمیز بیانات دینا بند کر سکتے ہیں یا ہمیشہ کی طرح منفی رویہ جاری رکھیں گے؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کی جوہری تنصیبات میڈیا ذرائع ذرائع ابلاغ کے بارے میں مذاکرات کی ڈونلڈ ٹرمپ دھمکی آمیز کی جانب سے معاہدہ طے امریکہ کے کرتے ہوئے ہوئے کہا ایران کے کہ ایران ایران سے ہوتا ہے رہے ہیں تباہ کر رہا ہے کیا ہے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!