آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں مجوزہ کمی پر اتفاق رائے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس کی شرح میں مجوزہ کمی پر ایک بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق اگلے بجٹ میں 14.2 2 ٹریلین روپے کے ہدف کا حصول بجٹ سازوں کے لئے چیلنج ہوگا کیونکہ اگلے مالی سال کے ہدف کی بنیاد غیر مستحکم حالات پر رکھی جائے گی، خاص طور پر جبکہ 12.
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اس کمی سے آئندہ مالی سال میں 56-60 ارب روپے کا ریلیف ملے گا، لہٰذا ایف بی آر کو اس خلا کو پر کرنے کے لئے انکم ٹیکس میں ٹیکس کے اقدامات تجویز کرنے ہوں گے۔ مذاکراتی ٹیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ہفتے کے روز دی نیوز کو تصدیق کی کہ ہم نے 10 جون کو پیش کئے جانے والے آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے کچھ ٹیکس اقدامات تجویز کئے ہیں۔
اعلیٰ حکام نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے کی تجویز کردہ ٹیکس سلیبز میں کمی کا مکمل تعین ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن ایف بی آر نے پہلے سلیب یعنی سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد پر صرف ایک فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جو موجودہ 5 فیصد کی شرح سے کم ہے۔ آئی ایم ایف پہلے سلیب سے 1.5 فیصد ٹیکس کی وصولی پر زور دے رہا ہے، لہٰذا اگر 1.5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تو افراد کو قومی خزانے میں 9000 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ باقی سلیبز کے لئے تنخواہ دار طبقے کی ہر آمدنی کی سلیب میں ڈھائی
فیصد کمی کی تجویز ہے اور زیادہ سے زیادہ سلیب کی شرح کو 35 فیصد سے کم کرکے 32.5 فیصد کیا جائے گا تاہم ابھی تک آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے درمیان مکمل لاگت کا درست حساب کتاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
عمران خان کے حوالے سے کسی ڈیل کا قائل نہیں ہوں: ملک احمد خان
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے آئی ایم ایف ایف بی آر ٹیکس کی کے لئے کی شرح
پڑھیں:
نقد ادائیگی پر پیٹرول 2 سے 3 روپے مہنگا ہونے، سامان کی خریداری پر 2 فیصد اضافی جی ایس ٹی لگنے کا امکان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی حکومت نقدی کے خلاف ’جنگ‘ کے اسٹریٹجک منصوبے کے تحت آئندہ بجٹ میں مختلف شعبوں بشمول ایندھن کی قیمتوں میں نقد اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے مختلف ٹیکس اور لین دین کی شرحیں متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ان اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہوگا جن کا وزیر خزانہ محمد اورنگزیب حالیہ دنوں میں عندیہ دے چکے ہیں اور ممکنہ طور پر 10 جون کو بجٹ تقریر کے دوران اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی (1 سے 1.5 فیصد) کا امکان ہے، وزیر اعظم کی سخت ہدایت پر کہ حکومت کم از کم ان شعبوں میں بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں ٹیکس شرحیں غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں، چاہے وہ نمایاں کمی نہ کر سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسی سازوں نے پہلے ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی مدد کے لیے اس اقدام کے تکنیکی اور انتظامی پہلوؤں پر کام شروع کر دیا ہے، جو گزشتہ دو دہائیوں میں متعدد کوششوں اور ماڈلز کے باوجود ریٹیل کاروبار کو مؤثر طریقے سے دستاویزی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
وزیر خزانہ نے مبینہ طور پر ایف بی آر، وزارت پیٹرولیم، بینکوں، مالیاتی اداروں اور کچھ مشاورتی کمپنیوں کے ساتھ کم از کم 3 مشاورتی اجلاس منعقد کیے ہیں تاکہ تکنیکی حل تلاش کیے جا سکیں۔
نقدی پر مبنی معیشت کے خلاف یہ مہم اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دہری سمتوں سے کام کرے گی تاکہ صارفین اور کاروباری اداروں کو دستاویزی لین دین کے لیے لاگت کم کرنے اور نقد ادائیگیوں پر اخراجات بڑھانے کی ترغیب اور مجبوری دی جا سکے، اس کا مقصد جہاں بھی ممکن ہو، معیشت کو بتدریج کم نقد سے مکمل غیر نقد نظام کی طرف منتقل کرنا ہے۔
ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ملک بھر کے تمام پیٹرول پمپس بشمول چمن تا خیبر اور کراچی تا آزاد کشمیر، کو قانوناً ڈیجیٹل ادائیگی کے آپشنز فراہم کرنا ہوں گے، جن میں نقد کے ساتھ ساتھ کیو آر کوڈز، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز اور موبائل ادائیگی کی سہولتیں شامل ہوں گی۔
سرکاری طور پر مقرر کردہ پیٹرولیم قیمتیں صرف ڈیجیٹل لین دین پر لاگو ہوں گی جبکہ نقد خریداری پر فی لیٹر تقریباً 2 سے 3 روپے اضافی لاگت عائد ہوگی۔
صارفین کو نقدی کے ذریعے مہنگی ادائیگی کرنے کی آزادی حاصل ہوگی لیکن انہیں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کیا جائے گا۔
اہلکار نے کہا کہ یہ ایک ریگولیٹڈ ماحول ہے اور شروع میں قابلِ عمل ہے، یہ اقدام سرحدوں اور بندرگاہوں سے ریفائنریوں اور ڈپوز تک پیٹرولیم کی فراہمی کو ٹریک کرنے میں بھی مدد دے گا۔
دوسری طرف، درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کو اپنے سپلائرز یا ریٹیلرز سے ڈیجیٹل ادائیگی پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چارج کرنا ہوگا جبکہ نقد ادائیگی پر 2 فیصد اضافی جی ایس ٹی عائد ہو گی۔
اضافی قیمت
ایک سرکار اہلکار نے بتایا کہ ’اگر تھوک فروش، تقسیم کنندگان اور ریٹیلرز زیادہ ٹیکس دینے پر آمادہ ہیں اور ان کے صارفین اضافی لاگت برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں، تو یہ ان کی اپنی مرضی ہے، لیکن اس میں خاطر خواہ مالی اخراجات شامل ہوں گے‘۔
ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال سے جب اس معاملے پر رائے طلب کی گئی تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ’ہمیں کیش لیس معیشت کی طرف بڑھنا ہوگا‘، تاہم انہوں نے بجٹ سے قبل مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ نئی حکمت عملی بظاہر بینکاری لین دین کے لیے فائلر اور نان فائلر کیٹیگری سے مشابہ لگ سکتی ہے (ایک ایسی پالیسی جو اپنے محدود دائرہ کار کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکی) تاہم نئی پالیسی کی رسائی کہیں زیادہ وسیع ہوگی، جو چھوٹے اور غیر رسمی کاروباری لین دین کو بھی ترغیب اور سختی کے امتزاج سے قابو میں لے گی۔
فنانس بل 26-2025 میں ایک قانونی شق شامل ہوگی جس کے تحت ہر کاروبار (چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا) کو نقد اور ڈیجیٹل دونوں طریقہ ہائے ادائیگی کی سہولت دینا لازم ہوگا تاہم نقد ادائیگی پر ڈیجیٹل کے مقابلے میں اضافی ٹیکس یا فیس لاگو ہوگی۔
ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے مہنگے پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) سسٹمز کے بجائے حکومت سادہ کیوآر کوڈز اور دیگر آسان ڈیجیٹل حل متعارف کرائے گی تاکہ عمل درآمد کم لاگت اور زیادہ سہولت کے ساتھ ممکن بنایا جا سکے، بھارت، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے اس حوالے سے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ایک اور اہلکار نے بتایا کہ ایف بی آر بڑے کاروباروں جیسے ایونٹ مینیجرز، جیولرز، شادی ہالز، اور کئی پیشہ ور افراد مثلاً ڈاکٹرز، وکلا اور بیوٹی سیلونز کو نقدی سے ڈیجیٹل ادائیگیوں کی طرف راغب کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے بجٹ کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وعدہ کیا کہ ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار اور دستاویزی شعبے سے ہٹا کر دیگر پر منتقل کیا جائے گا اور اس کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کو استعمال میں لایا جائے گا، انہوں نے اشارہ دیا کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لازمی استعمال کی طرف بڑے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ معیشت کو کیش لیس اور لین دین کو دستاویزی بنایا جاسکے۔
اسی ہفتے ایک عوامی تقریب میں، وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں قومی معیشت کو ایک اسٹریٹجک سمت میں لے جانے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات متعارف کروائے جائیں گے۔
اس سے قبل وزیر خزانہ نے ’نقدی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کیا تھا تاکہ 9.3 کھرب روپے سے زائد کی نقد گردش کو دستاویزی بنا کر قومی محصولات میں اضافہ کیا جا سکے، وہ اس مقصد کے لیے ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال، مکمل ڈیجیٹلائزیشن اور آڈٹ کے طریقوں کو آسان بنانے کی بات کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے ریکارڈ پر کہا تھا کہ نان فائلرز اور انڈر فائلرز انفرادی سطح پر تقریباً 1.3 کھرب روپے کے ٹیکس کی چوری کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر ہم جی 20 میں شامل ہونے کا خواب رکھتے ہیں تو ہمیں نقدی کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا ہوگا اور یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب لین دین کو دستاویزی بنایا جائے۔
محمد اورنگزیب کے مطابق پاکستان کی معیشت کی ممکنہ قدر 700 ارب ڈالر سے زیادہ ہے (جو کہ موجودہ تخمینے 410 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے) اور اس سے سالانہ ٹیکس چوری کا حجم 7 کھرب روپے سے زائد بنتا ہے، انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم اس دستاویزی عمل کو یقینی بنائیں گے۔
پیٹرولیم کے شعبے میں حکومت نے گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں ایک تاریخی بل پیش کیا جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد، پیداوار سے لے کر ریٹیل سیل تک ڈیجیٹل ٹریکنگ کا نظام متعارف کرایا جائے گا تاکہ اسمگلنگ اور ملاوٹ کا سدباب ہو سکے، اس سے نہ صرف ماحول اور گاڑیوں کے انجن متاثر ہوتے ہیں بلکہ سالانہ 300 سے 500 ارب روپے کا ریونیو نقصان بھی ہوتا ہے۔
آنے والے بجٹ میں دہری قیمتوں کا مجوزہ نظام اسی قانون سازی کے معاون کے طور پر کام کرے گا اور ایندھن کی سپلائی چین میں مکمل ٹریسیبلٹی فراہم کرے گا۔
مزیدپڑھیں:’’سیلاب متاثرین کو 21 لاکھ مفت گھر دینے، خواتین کو ہر سال پنک اسکوٹی دینے کے اعلانات‘‘