بھارتی فوج کا نام نہاد سیکولر چہرہ بے نقاب ہوگیا جب کہ بھارتی فوج کے سربراہ نے متنازع ، سخت انتہا پسند “بابا” جگدگرو رام بھدر آچاریہ کے آشرم میں حاضری دی اور وردی ہندوتوا کے آگے جھک گئی۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندر دویدی کا مکمل فوجی وردی میں متنازع ہندو مذہبی شخصیت جگدگرو رام بھدرآچاریہ کے آشرم کا دورہ بھارتی فوج کی دیرینہ سیکولر شناخت، آئینی وفاداری اور پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہ واقعہ مذہبی قوم پرستی کے عسکری اداروں پر غلبے کا ثبوت بن چکا ہے اور اس کے خطے کے امن و استحکام پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جنرل اوپندر دویدی نے مکمل فوجی وردی میں متنازع ہندو شخصیت رام بھدرآچاریہ کے آشرم کا دورہ کیا، جو متنازع رام جنم بھومی ایودھیہ تحریک کا انتہا پسند حامی ہے۔

رام بھدرآچاریہ وہ متنازعہ گرو ہے جو بابری مسجد کیس کے کلیدی گواہ، دلت مخالف اور مذہبی انتہا پسندی کا چہرہ ہے، جو اکژمسلمانوں، عیسائیوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف زہر افشانی کرتا ہےجو غیر قانونی زمینوں پر قبضہ کر کے ہندو تقاریب کا جشن منا کر ریاستی اعزازات سیاسی وفاداری کے صلے میں حاصل کرتا ہے۔

بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندر دویدی اور انتہا پسند گرو کی ملاقات کے دوران رام بھدرآچاریہ نے “دکشینا” (نزرانہ)کے طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر مانگا، جسے جنرل نے قبول کیا۔ یہ فوجی غیرجانبداری کا خاتمہ اور عسکری ادارے کو مذہبی ایجنڈے کا آلہ کار بنانے کی مثال ہے۔

اس کا مطلب یہ ہواکے انڈیا جب تک ٓزاد کشمیر پر قبضہ نہیں کر لیتا پاکستان پر حملے ہوتے رہیں گے۔

یہ ملاقات “آپریشن سیندور” کے پس منظر میں ہوئی، جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر ممکنہ حملے سے جڑی ہوئی ہے – ایک ایسا خفیہ عسکری منصوبہ جس کا ہدف مبینہ طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تھا۔ حیرت انگیز طور پر چھ ماہ قبل ہی رام بھدرآچاریہ نے ایک متنازع پیشگوئی کر دی تھی کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جلد بھارت کا حصہ بن جائے گا۔

گویا رام بھدرآچاریہ کی پیشگوئی نہ صرف ممکنہ فالس فلیگ آپریشن کی پیشگی تیاری تھی بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت مذہبی تائید کے ساتھ پاکستان کے خلاف حملے کی راہ ہموار کی گئی جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ بھارت میں ہندو شدت پسند مذہبی قیادت اور فوجی منصوبہ بندی کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے۔

بھارتی فوج ہندوتوا، ذات پات اور آمرانہ سیاست میں لپٹی جا رہی ہے، اور بی جے پی و آر ایس ایس کے اثر میں “مودی کی سینا” میں بدل رہی ہے۔

ڈاکٹر جیسن فلپ جیسے نامور تجزیہ کار کے مطابق آرمی چیف کی یونیفارم میں مذہبی رہنما سے ملاقات بھارت کے سیکولر تصور کا خاتمہ ہے۔ بلکہ سابق فوجی افسر کرنل پاون نیئر نے اسے فوجی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ سیاسی تجزیہ کار سشانت سنگھ نے شدید حیرت کا اظہار کیا۔

فوجی وردی میں رام بھدرآچاریہ جیسے ہندو انتہا پسند سے ملاقات مذہبی جارحیت اور پیشہ ورانہ عسکری شناخت کے درمیان حد کو مٹا دیتی ہے۔

یہ عمل صرف داخلی سیاست یا مذہبی ایجنڈے کی ترویج تک محدود نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔جب مذہبی پیشگوئیاں فوجی عزائم کا تعین کرنے لگیں تو یہ ریاستی دہشتگردی کا نیا ماڈل بن جاتا ہے۔

بھارتی فوجی سربراہ کا رام بھدرآچاریہ جیسے متعصب فرد سے تعلق فوجی ادارے میں ہندوتوا کے گہرے نفوذ کی علامت ہy.

فوج اب حکمران جماعت کی عسکری ملیشیا بن چکی ہے، “مودی کی سینا” کا لیبل حقیقت بن چکا ہے، اور فوجی تاریخ کو مذہبی اساطیر سے بدل دیا گیا ہے۔بھارتی فوج، جو کبھی سیکولر زم کی علامت تھی، اب ہندتوا رنگ میں رنگی، سیاست زدہ اور مذہبی انتہا پسندی کا آلہ بن چکی ہے۔ یہ صورت حال پورے خطے اور بین الاقوامی امن کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔

فوج کا سربراہ جب ایک مزیب کا رنگ اوڑھ لے تو باقی فوج میں یقیناً بددلی پھیلتی ہے۔ اور وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا وہ اپنی جانیں زغفرانی فوج کے لئے دے رہے ہیں؟

Post Views: 2

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بھارتی فوج کے سربراہ رام بھدرآچاریہ پاکستان کے زیر انتہا پسند کے آشرم

پڑھیں:

لاہور میں مقیم مہمان ہندوؤں کے لیے دیوالی کی تقریب کا انعقاد

لاہور:

روشنیوں، رنگوں اور مسکراہٹوں سے جگمگاتی ایک شام مقامی این جی او، برگد کے زیر اہتمام دیوالی کی تقریب لاہور میں اس وقت ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی جب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک ہی چھت تلے امن، محبت اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہے تھے۔

اگرچہ پاکستان بھر میں دیوالی کی مرکزی تقریبات 21 اکتوبر کو منائی جا چکی تھیں، تاہم برگد نے یہ جشن خاص طور پر ان ہندو نوجوانوں اور شہریوں کے لیے سجایا جو تعلیم یا ملازمت کے باعث اپنے آبائی شہروں میں دیوالی نہیں منا سکے تھے۔

برگد کی پروگرام کوارڈینیٹر رابعہ سعید کے مطابق تقریب کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا اور لاہور میں مقیم اُن شہریوں کو گھروں جیسا احساس دینا تھا جو اپنے خاندانوں سے دور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیوالی محض ایک مذہبی تہوار نہیں بلکہ امید، روشنی اور باہمی احترام کی علامت ہے۔

تقریب میں صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑا، پارلیمانی سیکرٹری سونیا عاشر، رکن پنجاب اسمبلی فرزانہ عباس، علامہ اصغر چشتی، علامہ محمود غزنوی، پادری سیموئیل اور پادری آصف کھوکھر سمیت مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ مقررین نے اپنے پیغامات میں کہا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور مذہبی ہم آہنگی ہی قومی یکجہتی کی بنیاد ہے۔

صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑا نے کہا کہ حکومتِ پنجاب اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کے تحت اقلیتی کارڈکا اجرا ایک فلاحی اقدام ہے جس کے ذریعے پسماندہ غیر مسلم برادریوں جیسے مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر طبقات کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری محترمہ سونیا عاشر نے قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے تاریخی خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ رکنِ صوبائی اسمبلی  محترمہ فرزانہ عباس نے کہا کہ ایسے مواقع قوم کے اندر اتحاد اور تنوع کی خوبصورتی کو اجاگر کرتے ہیں۔

علامہ اصغر چشتی نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کی شمولیت اور ان کے کردار کو فروغ دینا قومی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

دیوالی کا آغاز پنڈت بھگت لال کی دعائیہ کلمات سے ہوا۔ انہوں نے دیوالی کی روحانی و تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تہوار نیکی کی برائی پر فتح اور روشنی کے اندھیرے پر غلبے کی یاد دلاتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ہندو طلبہ مہیش لال، سالار سکندر، پرمانند پرمار جن کا تعلق رحیم یار خان اور تھرپارکر سے تھا۔ انہوں بتایا کہ وہ امتحانات کے باعث اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے، لیکن برگد کی تقریب نے انہیں اپنے خاندانوں کے قریب ہونے کا احساس دلایا۔ ان کے مطابق یہ شام نہ صرف خوشی بلکہ قبولیت اور دوستی کا پیغام تھی۔

نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اور میثاق سینٹر کے نمائندوں نے برگد کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات معاشرتی امن اور باہمی احترام کو مضبوط بناتے ہیں۔

دیوالی، جسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے، ہندو برادری کا سب سے اہم مذہبی جشن ہے۔ اسے خوشی، شکرگزاری اور نئے آغاز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گھروں اور مندروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، اور یہ دعا کی جاتی ہے کہ روشنی ہمیشہ تاریکی پر غالب رہے۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا
  • بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ گئی،کشمیر  کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدرآصف علی زرداری
  • پشاور: پولیس وردی میں ڈکیتیاں کرنے والے افغان 4 شہری ہلاک
  • بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات کیلیے سیکورٹی پلان پر مشاورت
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • لاہور میں مقیم مہمان ہندوؤں کے لیے دیوالی کی تقریب کا انعقاد
  • اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ، بھارتی پروپیگنڈا بےبنیاد ہے، پاکستان
  • بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان