گلین میکسویل کا ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
میلبرن:آسٹریلوی آل راؤنڈر گلین میکسویل نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ سے فوری طور پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
36 سالہ میکسویل اب صرف ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل فارمیٹ میں آسٹریلیا کی نمائندگی کریں گے اور امکان ہے کہ وہ 2026 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک دستیاب رہیں گے۔
یہ اعلان انہوں نے ایک طویل انٹرویو کے دوران “فائنل ورڈ پوڈکاسٹ” میں کیا جس میں انہوں نے کہا کہ 50 اوور کی کرکٹ میں جسمانی تھکن اور 2022 میں ہونے والی سنگین ٹانگ کی چوٹ ان کے فیصلے کی بڑی وجوہات تھیں۔
میکسویل نے کہا کہ میں محسوس کر رہا تھا کہ میری جسمانی حالت ٹیم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ میں نے سلیکٹرز سے کہا کہ 2027 کا ورلڈ کپ میری نظر میں نہیں ہے، بہتر ہے کہ اس پوزیشن کے لیے نئے کھلاڑیوں کو تیاری کا موقع دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی جگہ پر اس وقت تک نہیں بیٹھنا چاہتے تھے جب تک وہ سمجھتے کہ وہ کھیلنے کے قابل ہیں۔ صرف چند سیریز کے لیے اپنی جگہ پر قابض رہ کر خود غرضی نہیں دکھانا چاہتا تھا۔
میکسویل نے 149 ون ڈے میچز میں 3,990 رنز 33.
ان کی سب سے یادگار اننگز 2023 ورلڈ کپ میں افغانستان کے خلاف رہی، جب انہوں نے محض ایک ٹانگ پر کھیلتے ہوئے ناقابل شکست 201 رنز بنا کر آسٹریلیا کو 91-7 سے نکال کر فتح دلائی۔ یہ نہ صرف آسٹریلیا کی پہلی ون ڈے ڈبل سنچری تھی بلکہ کسی بھی تعاقب میں بنی پہلی ڈبل سنچری بھی تھی۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، دوہرے قتل کیخلاف قرارداد پیش
قرارداد میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ تحقیقات کی نگرانی کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مبنی کمیٹی بنائی جائیگی۔ اسلام ٹائمز۔ خواتین اراکین اسمبلی نے بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کے نواحی علاقے میں خاتون اور مرد کے قتل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔ تفصیلات کے مطابق ویمن پارلیمانی کاکس کی ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ اور دیگر خواتین اراکین کی جانب سے بلوچستان اسمبلی میں غیرت کے نام پر دہرے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں کوئٹہ کے نواحی علاقے سینجدی ڈیگاری میں غیرت کے نام پر مرد اور خاتون کے قتل کی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صوبائی، قومی، سماجی یا مذہبی روایت سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ غیر قانونی انسانی عمل ہے جو قانونی، سماجی اور اخلاقی اصولوں کے منافی ہے۔ کسی فرد کو منصف بننے کا حق نہیں، انصاف دینا صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ اس سفاکانہ عمل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ صوبے بھر میں ڈیگاری واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہا کہ یہ واقعہ پورے معاشرے کو جھنجوڑ گیا ہے۔ ہمیں حقائق نہیں معلوم، کمیٹی کی کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے اور مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔ عید سے پہلے کا واقعہ ہے اور ویڈیو اب وائرل ہوئی ہے۔ عدالتوں کے بغیر اس مسئلے سے کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ڈیگاری واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔
اس سے قبل اجلاس کے دوران اسد بلوچ نے کہا کہ 9 جولائی کو سی ٹی ڈی نے ان کے گھر چھاپہ مارا اور چادر و دیوار کو پامال کیا۔ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس ایوان میں آنے والے میڈیٹ لے کر آتے ہیں جو قانون سازی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی کے ساتھ جانے کو تیار تھے اور چھاپے کی وضاحت طلب کی۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے پارلیمانی سیاست کا کوئی جرم نہیں کیا۔ انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور نہ کیا جائے اسد بلوچ واک آوٹ کرکے ایوان سے چلے گئے۔
صوبائی وزیر علی مدد جتک نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر مسلح افراد لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کونسی قبائلیت ہے اور ان دہشت گردوں کا سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بلوچ اور پشتون روایات میں مہمانوں کو شہید نہیں کیا جاتا۔ مستونگ سے بیلہ تک تمام کاروبار دہشت گردی کی وجہ سے بند ہیں اور لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اسد بلوچ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ طالب علم مصور کاکڑ کی لاش ملی ہے۔ حکومت تحفظ دینے کے بجائے کہتی ہے کہ شام 5 بجے سے صبح تک لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دن میں حکومت صرف 4 گھنٹے فعال ہے اور باقی وقت دراندازی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ عوام کو قومی شاہراہوں پر تحفظ فراہم کرے۔ بارڈر بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود کوئی سکیورٹی آفیسر معطل نہیں ہوا۔