لاہور:متروکہ وقف املاک بورڈ نے رواں ماہ سکھوں کی دو اہم مذہبی تقریبات کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو جی کا شہیدی دن (جوڑمیلہ) کی تقریب 16 جون کو گردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور میں ہوگی جبکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریب 29 جون کو لاہور میں ان کی سمادھی پر ہوگی۔ ان تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتریوں کو دعوت دی گئی ہے۔پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کی طرف سے بارڈر بند ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی دعوت کے باوجود بھارت سے سکھ یاتریوں کی آمد متوقع نہیں ہے۔ذرائع کے مطابق پاکستان بھارتی سکھ یاتریوں کے آمد پر ان کے لیے اپنا بارڈر کھولنے کے لیے تیار ہے لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے سکھوں کو پاکستان آنے کے لیے این اوسی ملنے کی توقع نہیں ہے۔اس کشیدگی اور تناؤ کے باوجود متروکہ وقف املاک بورڈ نے شیڈول جاری کر دیا ہے.

جس کے مطابق بھارتی سکھ یاتریوں کا پہلا گروپ (اگر انہیں بھارتی حکومت کی طرف سے اجازت مل گئی) 9 جون بروز پیر کو پیدل واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہوگا۔ یاتری سب سے پہلے گوردوارہ جنم استھان، ننکانہ صاحب جائیں گے جہاں قیام کے دوران وہ مقامی گوردواروں کی زیارت کریں گے۔ننکانہ صاحب میں دو روزہ قیام کے بعد یاتری 11 جون کو گوردوارہ سچا سودا، فاروق آباد کے راستے حسن ابدال روانہ ہوں گے۔ 12 جون کو وہ گوردوارہ پنجہ صاحب میں قیام کریں گے اور اس موقع پر مسلمان بزرگ صوفی بابا ولی قندھاری کی درگاہ پر بھی جا سکیں گے۔ 13 جون کو یاتری نارووال کے لیے روانہ ہوں گے جہاں وہ گوردوارہ دربار صاحب، کرتارپور میں حاضری دیں گے اور 14 جون کو وہیں قیام کریں گے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سکھ یاتریوں جون کو کے لیے

پڑھیں:

صحافت کا مرد ِقلندر

مقبول الرحیم مفتی صاحب ’انقلاب‘ برپا کرنے کے لیے راول پنڈی سے لاہور آئے تھے اور اسی خواب کی تکمیل کے لیے یہاں اپنے ’انقلابی مرشد‘ کے زیرِسایہ ایک چھوٹے سے کوارٹر میں صبر وشکر کے ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے۔ ان کی بدقسمتی کہ کسی معاملے میں اپنے ’انقلابی مرشد‘ سے اختلاف کرنے کی جسارت کر بیٹھے۔ ’انقلاب‘ اور ’اختلاف‘ اکٹھے نہیں چل سکتے۔ چنانچہ، جب وہ اپنے حق ِاختلاف سے دست بردار نہ ہوئے، تو ایک روز حکم موصول ہوا کہ کوارٹر فوراً خالی کر دیں۔

انھوں نے پس و پیش کی، توکوارٹر کی بجلی کاٹ دی گئی؛ اور اس رات جب باقی کوارٹروں کے برعکس صرف انھی کا کوارٹر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، اور ان کی بیوی موم بتی کی روشنی میں بچوں کے لیے کھانا تیار کر رہی تھیں، اور بچے پوچھ رہے تھے، ’’ ابا، باقی سب کوارٹروں میں روشنی ہے، ہمارے کوارٹر میں اندھیرا کیوں ہے؟ تو ایک لمحے کے لیے مفتی صاحب کی آنکھوں کے سامنے بھی اندھیرا چھا گیا۔

تھوڑی دیر بعد جب ذہن پھر سے کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو اپنی’انقلابی زندگی‘ میں پہلی بار ان کو احساس ہوا کہ وہ ’انقلاب‘ نہیں، بلکہ سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ زندگی ایک ٹھوس حقیقت ہے اور محض سہانے خوابوں اور جذباتی نعروں کے سہارے بسر نہیں کی جا سکتی۔ کوارٹر بہرحال انھیں خالی کرنا ہی پڑا، اوروہ قریب ہی کرایے کے ایک مکان میں منتقل ہوگئے۔

مفتی صاحب سے پہلی ملاقات سمن آباد لاہور، ہفت روزہ ’ندا‘ کے دفتر میں ہوئی۔ میں نے جب بطور معاون مدیر اسے جوائن کیا، تو مفتی صاحب اس کی مجلس ادارت کے سینئررکن تھے۔ اس زمانہ میں وہ ’انقلاب‘ کے سحر سے تو آزاد ہو چکے تھے، تاہم ’انقلابیوں‘ سے ان کی دلچسپی کم نہیں ہوئی تھی۔گوری چٹی کشمیری رنگت، روشن آنکھیں، عمر چالیس کے لگ بھگ، مگر سر اور ڈاڑھی سفید ہو چکے تھے۔

شفاف سپیدکرتا شلوار، سر پر قراقلی ٹوپی، ہاتھ میں چمڑے کا بیگ، اور ویسپا سکوٹر، دفتر میں مفتی صاحب کی پہچان بن چکے تھے۔ دفتر آنے میں انھیں اکثر دیر ہو جاتی، تو اس کی وجہ یہی سکوٹر ہوتا تھا، جس کے ساتھ راستے میںکوئی نہ کوئی مسئلہ ضرورہو جاتاہے۔ لیکن مجال ہے کہ مفتی صاحب کے چہرے پر کوئی خفگی نمودار ہو۔ اس کے برعکس، وہ مسکراتے ہوئے سکوٹر سڑک کنارے کھڑا کرتے، پلگ نکالتے، انتہائی اطمیان سے اسے صاف کرتے، دوبارہ فٹ کرتے اور کچھ ہی دیر میں پھر سے سڑک رواں دواں نظر آتے تھے۔

یہ سب کچھ وہ اتنے میکانکی انداز میں کرتے کہ اس دوران ان پرکسی خود کار مشین کا گمان ہوتا تھا۔ جب بھی مدیر ’ندا‘ اقتدار صاحب اپنی سرخ پجارو میں گزرتے ہوئے، سڑک کنارے مفتی صاحب کو اس میکانکی مہارت کا مظاہرہ کرتے دیکھا، تو دفتر پہنچنے پر کافی دیر تک حیرت سے خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے رہے،’’بھئی عجیب آدمی ہیں یہ مفتی صاحب بھی‘‘۔ یاد رہے کہ دفتر آنے کے لیے مفتی صاحب اور ان کا وقت اور روٹ ایک ہی تھا۔

مفتی صاحب اس روزکچھ دیر بعد سکوٹر سے اتر کے ٹہلتے ٹہلتے دفتر میں داخل ہوتے، تو اقتدارصاحب اس پر مصنوعی ناراضی کا اطہار کے بعد انھیں اس سکوٹر سے جان چھڑانے کا مشورہ ضرور دیتے۔ مفتی صاحب کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا،’’یہ بالکل ٹھیک ہے، بس کبھی کبھی اس کے پلگ میں کچرا آ جاتا ہے‘‘۔ اقتدار صاحب سر پکڑ کے ہنستے ہوئے واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے۔

ظہر کے بعد مفتی صاحب بڑے اہتمام سے کھانے کا ٹفن کھولتے، کھانے کے بعد کرسی پر بیٹھے بیٹھے کچھ دیر آنکھیں بند کرکے قیلولہ کرتے، اور پھر سامنے پڑے مسودوںپر جھک جاتے۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئی چار پر آتی، وہ اپنی قراقلی ٹوپی سر پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے۔ مفتی صاحب اور میں دفتر سے باہر آتے، تو عین اسی وقت سامنے ’اردوڈائجسٹ‘ کے دفتر سے اخترحیات اور یزدانی جالندھری بھی خراماں خرامان چلے آرہے ہوتے۔ سڑک کے دوسری طرف شانگلہ ٹی اسٹال پر چائے ہم سب کی منتظر ہوتی تھی۔

یزدانی صاحب خاموش طبع آدمی تھے،لیکن اختر حیات اور مفتی صاحب ایک دوسرے پر ہلکی پھلکی چوٹیں کرتے رہتے تھے۔ مفتی صاحب خوش ہو کے ہنستے تھے، تو اس کی آواز نہیں آتی تھی۔ اس پر اختر حیات چہکتے،’مفتی صاحب، آپ نے ہنسی پرسائلنسر تو نہیں لگوایا ہوا؟‘ مفتی صاحب اس پر اورزیادہ ہنستے تھے، تو اختر حیات بھی ان کے ساتھ مل کے ہنسنے لگتے تھے۔

مفتی صاحب سے یہ دفتری رفاقت بڑی مختصر رہی، لیکن اس عرصہ میں ان سے جوکچھ سیکھا، وہ میری زندگی کا بہترین اور انمول سرمایہ ہے۔ میں نے اپنی صحافتی کیرئیر میں جو چند صاحب مطالعہ صحافی دیکھے ہیں، مفتی صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ دینی علوم اور دینی تحریکات پر ان کی نظر انتہائی گہری تھی ا ور بڑے بڑے جغادری علما، مدیر اور دانشور ان کے علم و مطالعہ کی تاب نہیں لا پاتے تھے۔ انتہائی رواں اور شستہ اردو میں لکھتے تھے۔ اقتدار صاحب کی خواہش پر ڈاکٹر اسرار احمدکی تقریروں کو وہی تحریری صورت دیتے اور ان کی نوک پلک درست کرتے تھے۔

مفتی صاحب کی عالمانہ ہیبت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا، جب ایک بار وہ اور میں لاہور کے ایک نامی گرامی مذہبی مفکر کا انٹرویو کرنے گئے۔ مفتی صاحب کو میرے ساتھ دیکھ کے وہ کچھ گڑبڑا سے گئے۔ بہرحال، بھرپور انٹرویو ہوا اور مغرب سے عشا تک چلتا رہا۔ اس دوران، میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ جب بھی مفتی صاحب نے کوئی سوال کیا، وہ اس کا تسلی بخش جواب نہ دے پائے۔ مگر، میری حیرت کی انتہا نہ رہی،جب دوسرے روز دفتر پہنچا تو مدیر صاحب نے فوری طور پر مجھے بلایا اور کہا ، یہ انٹرویو لکھنے کی زحمت نہ کریں۔ ان صاحب کی کال آئی ہے کہ میرا یہ انٹرویو شایع نہ کیجیے۔‘‘ میں نے مفتی صاحب کو یہ بات بتائی، تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا،’’ مجھے تو اس پر کوئی حیرت نہیںہوئی، کیونکہ یہ صاحب پہلے سے طے شدہ نرم نرم سوالات پر انٹرویو دینے کے عادی ہیں ۔

وہ جو کہتے ہیں،اے روشنی ِطبع تو بر من بلا شدی، مفتی صاحب کا صاحبِ مطالعہ اور صاحب الرائے ہونا صحافت میں ان کے لیے ایک مستقل آزمایش بن گیا۔ پہلے تو ’ندا‘ ہی زیادہ عرصہ تک ان کی خدمات کا متحمل نہ ہوا۔ وہ ہفت روزہ ’ زندگی‘ میں آئے،جاوید غامدی اور طاہرالقادری کے جرائد میں گئے، لیکن کہیں زیادہ دیر ٹک نہیں پائے۔

 مفتی صاحب میںان کے علم و مطالعے سے بھی بڑھ کے جو چیز میں نے دیکھی، وہ اللہ کی ربوبیت پر ان کا کامل توکل تھا۔ کبھی کبھی تنگی ِ حالات پر آزردہ ضرور ہو جاتے، لیکن گزشتہ روز پھر نئے عزم کے ساتھ زمین پر اللہ کے فضل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے تھے۔ نوکری سے محرومی کے دنوں میں گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے مختلف جرائد میں جزوقتی کام کر لیتے تھے، لیکن کلمہء حق کہنے سے خود کو باز نہیں رکھ پاتے تھے۔ ہر چند کہ جانتے تھے کہ ملازمت میں کچھ نہ کچھ سمجھوتاکرنا پڑتا ہے،مگر شاید اپنی افتاد طبع کے باعث زیادہ دیر تک یہ سمجھوتا نہیں کر پاتے تھے۔

مفتی صاحب کی شاید حیدرفاروق مودودی کے توسط سے انسانی حقوق کمیشن کے آئی اے رحمان اور حسین نقی سے راہ و رسم پیدا ہوئی۔ پھر معلوم ہوا کہ مستقل طور پر کمیشن سے وابستہ ہو گئے ہیں۔کلمہ چوک پر روزنامہ ایکسپریس کے پاس ہی کمیشن کا دفتر ہے، لہٰذا، ایک عرصہ بعد مفتی صاحب سے دوبارہ باقاعدگی سے ملاقات رہنے لگی۔ میں نے انھیں بہت سارے دفتروں میں کام کرتے دیکھا تھا، پر یہاں پہلی بار ان کو قدرے مطمئن پایا۔ کچھ عرصہ بعد، وہ واپڈا ٹاون لاہور میں ہمارے گھر کے پاس ہی آ گئے۔ لیکن، صبح تا شام دفتر اور اس کے بعدگھر داری کی مصروفیت کے باعث یہاں ان سے بہت کم ملنا ہوا، اور جب کبھی ہوا، تو انھیں ان کے مزاج کے برعکس بہت افسردہ اور گم سم پایا۔ چہرے کی شگفتگی بھی ماند پڑ چکی تھی۔

کچھ عرصہ بعد عزیزم سلمان عابد کی زبانی معلوم ہوا کہ طارق گارڈن اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہو گئے ہیں۔ مفتی الرحیم مفتی صاحب کی عمر ابھی ایسی زیادہ نہ تھی، لیکن بے پناہ ذہنی اور جسمانی مشقت نے ان کے جسم و جان کی ساری توانائی وقت سے پہلے ہی نچوڑ لی تھی۔ آخری ایام میں بول چال بالکل بند کر دی تھی، بستر پر پڑے پڑے مسلسل چھت کی طرف دیکھتے رہتے تھے،جیسے، اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ، نجانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے‘۔ شاعر نے کہا تھا  ؎

مردم دیدئہ ما جز بہ رخت ناظر نیست

دل سرگشتہ ما غیر ترا ذاکر نیست

متعلقہ مضامین

  • بھارتی مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کی جنگ، عید قرباں سے قبل متعدد پابندیاں عائد
  • صحافت کا مرد ِقلندر
  • علامہ راجہ ناصر عباس کا ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیٹ اپس کے قیام کا اعلان
  • پاکستان کرکٹ ٹیم اگلے 2 برسوں میں کب اور کہاں کھیلے گی؟
  • بھارت میں آر ایس ایس کی سکھوں کو دہشتگرد قرار دینے کی سازش بے نقاب
  • آئی سی سی نے ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ 2025 کے شیڈول اور وینیوز کا اعلان کردیا
  • آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کے شیڈول کا اعلان کردیا
  • سیکولر بھارتی فوج کے سربراہ کی’ متنازع انتہا پسند گرو‘کے آشرم میں حاضری: وردی ہندوتوا کے آگے جھک گئی
  • پاکستان کے سفارتی وفد کے دورہ امریکا کا شیڈول سامنے آگیا