متحدہ عرب امارات کے صدر کا عیدالاضحیٰ سے قبل 963 قیدیوں کی رہائی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
ابو ظہبی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 3 جون 2025ء) متحدہ عرب امارات کے صدر، شیخ محمد بن زاید النہیان نے مختلف جرائم میں سزا یافتہ 963 قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
(جاری ہے)
عیدالاضحیٰ سے قبل اس انسان دوست اقدام کے تحت، صدرِ مملکت نے ان قیدیوں کی طرف سے ادا کی جانے والی مالی ذمہ داریاں بھی اپنے ذمے لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انسانیت نواز فیصلہ معاشرے میں درگزر، ہمدردی، اور خاندانی روابط کو مضبوط بنانے کے جذبے کا عکاس ہے، اور ان افراد کو نئی زندگی شروع کرنے کا ایک اور موقع فراہم کرتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
ایرانی عالم کی رہائی
اسلام ٹائمز: اہم نکتہ یہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب نے نظام کے اعلیٰ ترین مفادات پر مکمل ہوشیاری اور توجہ کے ساتھ حج کی تقریبات کے دوران میزبان ملک کے قوانین کی پاسداری کی تاکید کی ہے۔ انہوں نے واضع طور پر کہا ہے کہ ”حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہ انجام دیا جائے جس سے میزبان ملک کے قوانین کی خلاف ورزی ہو“۔ ان کے فرمان کے مطابق ”ہمارا طرز عمل درست، عقل مندانہ اور احترام والا ہونا چاہیئے“۔ تحریر: سید تنویر حیدر
ایرانی عالم دین غلام رضا قاسمیان جنہیں سعودی عرب میں گرفتار کیا گیا تھا آخر کار جیل سے رہائی پانے کے بعد اپنے وطن ایران واپس لوٹ آئے ہیں۔ غلام رضا قاسمیان نے حج کے موسم میں حرم رسول خدا (ص) کے قریب سے سوشل میڈیا پر ایک کلپ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے آل سعود کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ اس پر نہ صرف ایران میں اور ایران سے باہر مختلف نوعیت کے ردعمل سامنے آئے بلکہ سعودی حکام کے ذریعے ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ چند دن جیل میں گزارنے کے بعد انہیں آخرکار اسلامی جمہوری ایران کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں رہا کر دیا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب قاسمیان کا عین حج کے ایام میں سعودی عرب کی سرزمین سے ایک ایسی ویڈیو وائرل کرنا جس کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے کا احتمال ہو، مناسب ہے؟ ایسے میں جب کہ سعودی حکومت نے بعض حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ایران سے محاذ آرائی کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھا اور ایران سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ایران نے بھی سعودی عرب کی خواہش پر، عالمی صورت حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اور عالم اسلام اور حکومت اسلامی کی مصلحتوں کا ادراک کرتے ہوئے نیز اسرائیل اور امریکہ کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے سعودی عرب سے اپنے تعلقات نارمل کرنے کی کوشش کی۔
علی رضا قاسمیان نے سعودی عرب کی سرزمین پر جو کچھ کیا وہ یقیناً رہبر انقلاب اسلامی کی ان ہدایات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جو انہوں نے میزبان ممالک کے قوانین کا احترام کرنے اور ان کے خلاف کسی بھی اشتعال انگیز رویے سے بچنے کے حوالے سے دی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رہبر معظم کی دانشمندانہ نصیحت کو سنجیدگی سے جانچا جائے۔ آقای قاسمیان جیسے اقدامات نہ صرف قیادت کے ارادوں سے متصادم ہیں بلکہ اس سے نظام اور عوام کے لیے بھی بہتر نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب نے نظام کے اعلیٰ ترین مفادات پر مکمل ہوشیاری اور توجہ کے ساتھ حج کی تقریبات کے دوران میزبان ملک کے قوانین کی پاسداری کی تاکید کی ہے۔
انہوں نے واضع طور پر کہا ہے کہ ”حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہ انجام دیا جائے جس سے میزبان ملک کے قوانین کی خلاف ورزی ہو“۔ ان کے فرمان کے مطابق ”ہمارا طرز عمل درست، عقل مندانہ اور احترام والا ہونا چاہیئے“۔ یہ سفارش ایسے حالات میں کی گئی ہے جب گزشتہ برسوں میں بعض گروہوں کے اشتعال انگیز رویے ایرانی زائرین پر پابندیوں کا باعث بنے۔ رہبر معظم نے حج کے ایک وفد سے اپنے ایک اور خطاب میں بھی تناو پیدا کرنے والے اقدامات کے نتائج کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”حجاج کرام کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی جذباتی اور من پسند اقدام سے پرہیز کریں کیونکہ ایسے اقدامات سے بالآخر حجاج کرام اور اسلامی جمہوری ایران کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے“۔
رہبر کے یہ الفاظ حج اور بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں ان کے گہرے اور دوراندیشی پر مبنی ان کے نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔ رہبر معظم نے ہمیشہ عالم اسلام کے اتحاد اور نظام کے اصلاح کی بات کی ہے۔ وہ نظام کے قلیل مدتی اشتہاری مفادات پر طویل مدتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ رہبر معظم کی فکر رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کا فکر کا ہی پرتو ہے۔ امام خمینیؒ کی 36 ویں برسی قریب ہے۔ اس موقع پر ایک قطعہ موزوں ہوا ہے جو پیش خدمت ہے:
اک انقلاب کی ہر سمت آبیاری ہے
جہاں میں فکر خمینیؒ کا فیض جاری ہے
بکھرتی فکر خمینیؒ سے ہر ستمگر پر
وجود اپنا بکھرنے کا خوف طاری ہے