UrduPoint:
2025-09-18@14:24:09 GMT

غیر ملک کو اپنا بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

غیر ملک کو اپنا بنائیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) 2024 ءکے ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں تقریبا 20 فیصد آبادی تارکین وطن کی ہے۔ جرمن حکومت کی طرف سے نئے آنے والے افراد کی آباد کاری بہت پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں۔ مگر اکثر خاندان اپنی لاعلمی کی وجہ سے زبان اور ہنر سیکھنے یا حلقہ احباب بنانے اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے مواقع گنوا دیتے ہیں۔

اکثر اوقات گھریلو خواتین کے لیے بیرون ملک رہنا زیادہ دشوار ثابت ہوتا ہے۔ گھر کی ذمہ داری اور اپنوں سے دوری بہت سے ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ نئی جگہ پر جلد ایک سماجی حلقہ بنانا، زبان، نئے اصول و ضوابط سیکھنا اور سب سے بڑھ کر اپنے شوہر کے ساتھ زندگی صفر سے شروع کرنا اکثر سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسی صورتحال میں خواتین کا خود اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے اور نئے کلچر اور ملک میں جگہ بنانے کے لیے فعال کردار ادا کرنا نہایت اہم ہے۔

پاکستان سے آنے سے پہلے ہی اپنا مکمل ہوم ورک کر کے جس قدر ممکن ہو زبان اصول اور قانون سیکھ لینے چاہییں۔ جرمن حکومت کی طرف سے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے شہریوں کے لیے انٹیگریشن یا انظمام کے بہت سے پروگرام موجود ہیں مگر زیادہ تر لوگ ان کا علم نہیں رکھتے۔

تقریبا تمام شہروں میں فیملی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ یہ خاندانی مراکز شہر میں موجود کنڈر گارٹن، ڈے کیئر اور مختلف بے بی گروپ کے منتظمین ہیں۔

یہ مراکز دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے خاندانوں کے لیے بہت سے مواقع فراہم کرتے ہیں جن میں سب سے اہم جرمن لینگویج کیفے کا انتظام ہے۔ جہاں ایک پرسکون ماحول میں مل کر بیٹھنا اور زبان سیکھنے کا بالکل مفت موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف مشاغل کی بنیاد پر مل کر کھانا بنانا، سلائی سیکھنا، ورزش کے کورس، اکٹھے سیر پہ جانا وغیرہ ان مراکز کی پیشکش میں شامل ہے۔

ایک بہت اہم پروگرام جس کا علم رکھنا ہر چھوٹے بچوں والے خاندان کے لیے ضروری ہے وہ ہیں بچوں کے بے بی گروپ جو پیدائش سے تین سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ گروپ نا صرف والدین خاص تر ماؤں کو مل بیٹھنے، زبان سیکھنے اور سوشلائز کرنے کے مواقع دیتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ماہرین چھوٹے بچوں کی نشونما میں آنے والے اہم سنگ میل سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔

یہ تمام پروگرام بالکل مفت ہیں۔

جرمنی میں بڑھتی ہوئی ایک مثبت تبدیلی مختلف مذہبی تہوار کا انتظام بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کرسمس کے علاوہ کسی بھی تہوار کے لیے خاص انتظام دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے یہی فیملی سینٹر عید الفطر جسے جرمن میں سکرفیسٹ کہا جاتا ہے، کا باقاعدہ انتظام کرتے ہیں۔ کچھ سکولوں یا کنڈر گارٹن میں رمضان میں ایک دفعہ افطار کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

مل کر بیٹھنا مہندی لگانا، دوستانہ ماحول میں مختلف تہذیبوں سے متعلق سیکھنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے تمام مواقع ایک دوسرے کے لیے احترام اور برداشت پیدا کرتے ہیں اس لیے بہت ضروری ہے کہ اگر جرمن حکومت ہمیں بتا رہی ہے کہ ہم مسلمان اہمیت رکھتے ہیں تو ہم اس کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے مذہب اور اپنے ملکوں سے جڑے متعصبانہ خیالات کو جڑ سے ختم کریں۔

اسی طرح یہ علم رکھنا ضروری ہے کہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے کیا کیا مدد ممکن ہے۔ مختلف مشاغل اور سپورٹس کے بہت سے مواقع ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے تارکین وطنوں کے لیے خاص ایکٹو کارڈ بھی جاری کیے گئے ہیں جن کے ذریعے وہ زیادہ تر سیر و تفریح اور سپورٹس کے پروگرام پر خاص رعایت حاصل کر سکتے ہیں۔

مختلف فیس بک گروپس پر دیسی کمیونٹی سے جڑ کر رہا جا سکتا ہے اور اس طرح بہت سی معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

گھر سے نکل کر تازہ ہوا میں سانس لینا اور ایک قابل بھروسہ دوستانہ حلقہ ہونا بہت ضروری ہے ورنہ تنہائی کا احساس اکثر منفی سوچ کو جنم دیتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے لوگوں سے روابط میں ضرور رہیں مگر اپنا سماجی حلقہ صرف پاکستانیوں تک محدود نہ کریں۔ اپنے سماجی حلقے اور اپنی سوچ دونوں کو اتنا وسیع ضرور کریں کہ کچھ نیا سیکھنا اور آگے بڑھنا ممکن رہے۔

مثبت رویہ قائم رکھنے کے لیے اور اپنی ذہنی صحت بہتر بنانے کے لیے فعال طور پر بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے کو اسپیس دینے اور اپنی زندگی خود کامیاب اور خوشگوار رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ضروری ہے اور اپنی کرتے ہیں کے لیے بہت سے

پڑھیں:

صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) دنیا میں صنفی مساوات کی جانب پیشرفت سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی قیمت انسانی جانوں، حقوق، اور مواقع کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں دہائی کے آخر تک 351 ملین سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں شدید غربت کا شکار ہوں گی۔

اقوام متحدہ کے شعبہ معاشی و سماجی امور اور خواتین کے لیے ادارے 'یو این ویمن' کی جانب سے پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت صنفی مساوات کے بارے میں کسی بھی ہدف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین میں غربت کی شرح گزشتہ پانچ برس میں تقریباً 10 فیصد پر ہی برقرار ہے۔ اس غربت سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ذیلی صحارا افریقہ اور وسطی و جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال ہی 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور بچیاں ایسے علاقوں میں یا ان کے قریب رہتی تھیں جو مہلک تنازعات کی زد میں تھے۔ یہ 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

جنگ زدہ علاقوں میں پھنس جانے والی خواتین کے لیے صرف بے گھر ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے لیے خوراک کی قلت، طبی خطرات اور تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اب بھی دنیا بھر میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔گزشتہ سال ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو اپنے شریکِ حیات کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئی۔

علاوہ ازیں، ہر سال تقریباً 40 لاکھ بچیوں کو جنسی اعضا کی قطع و برید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے نصف کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔ UN Photo/Manuel Elías بہتری کی مثال

مایوس کن اعداد و شمار کے باوجود، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب حکومتیں صنفی مساوات کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔

2000 سے اب تک زچگی کے دوران اموات میں تقریباً 40 فیصد کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے لیے سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔

یو این ویمن میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب وہ 1997 میں زمبابوے منتقل ہوئیں تو وہاں بچے کی پیدائش زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتی تھی۔

تاہم، آج وہاں یہ صورتحال نہیں رہی اور یہ صرف 25 یا 30 سال کے عرصے میں ہونے والی شاندار پیش رفت ہے۔صنفی ڈیجیٹل تقسیم

صنفی مساوات کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی امید کی کرن دکھائی ہے۔آج 70 فیصد مرد انٹرنیٹ سے جڑے ہیں جبکہ خواتین کی شرح 65 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ ڈیجیٹل فرق ختم کر دیا جائے تو 2050 تک مزید 34 کروڑ 35 لاکھ خواتین اور بچیاں انٹرنیٹ سے مستفید ہو سکتی ہیں اور 3 کروڑ خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔

اس طرح 2030 تک عالمی معیشت میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث کا کہنا ہے کہ جہاں صنفی مساوات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں معاشرے اور معیشتیں ترقی کرتے ہیں۔ صنفی مساوات پر کی جانے والی مخصوص سرمایہ کاری سے معاشروں اور معیشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کی مخالفت، شہری آزادیوں کو محدود کیے جانے اور صنفی مساوات کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی کمی نے برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

معلومات میں کمی کا مسئلہ

یو این ویمن کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خواتین پالیسی سازی اور ڈیٹا میں نظروں سے اوجھل رہیں گی کیونکہ جائزوں کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے باعث اب صنفی امور پر دستیاب معلومات میں 25 فیصد کمی آ گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے اقتصادی و سماجی امور لی جن ہوا نے کہا ہے کہ اگر نگہداشت، تعلیم، ماحول دوست معیشت، افرادی قوت کی منڈی اور سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیز رفتار اقدامات کیے جائیں تو 2050 تک شدید غربت میں مبتلا خواتین اور بچیوں کی تعداد میں 11 کروڑ کی کمی ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں 342 ٹریلین ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

© UNICEF/Maldives امن، ترقی اور حقوق کی بنیاد

تاہم اس حوالے سے موجودہ پیش رفت غیر متوازن اور تکلیف دہ حد تک سست ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے پاس صرف 27.2 فیصد پارلیمانی نشستیں ہیں جبکہ مقامی حکومتوں میں ان کی نمائندگی 35.5 فیصد پر آ کر تھم گئی ہے۔ انتظامی عہدوں میں خواتین کا حصہ صرف 30 فیصد ہے اور موجودہ رفتار سے دیکھا جائے تو حقیقی مساوات حاصل کرنے میں تقریباً ایک صدی لگ سکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کوئی نظریہ نہیں بلکہ یہ امن، ترقی، اور انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اہم ترین ہفتہ شروع ہونے سے قبل جاری کردہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اب صنفی مساوات کے لیے فیصلہ کن اقدام کا وقت آ پہنچا ہے۔ اب یا تو خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی یا ایک اور نسل ترقی سے محروم رہ جائے گی۔

سارہ ہینڈرکس نے عالمی رہنماؤں کو 'یو این ویمن کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اور نیا راستہ بھی موجود ہے لیکن یہ خودبخود حاصل نہیں ہو گی۔

یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں سیاسی عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے کام کریں گی۔

رپورٹ میں 2030 تک تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے صنفی مساوات کی خاطر چھ ترجیحی شعبوں میں کام کی سفارش کی گئی ہے جن میں ڈیجیٹل انقلاب، غربت سے آزادی، تشدد سے مکمل تحفظ، فیصلہ سازی میں برابر شرکت، امن و سلامتی اور ماحولیاتی انصاف شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ساف انڈر17 فٹبال چیمپئن شپ: پاکستان اپنا دوسرا میچ جمعہ کو کھیلے گا
  • اب ایل ڈبلیو ایم سی ورکرز بھی "اپنی چھت اپنا گھر" کاخواب حقیقت میں بدل سکیں گے
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • ترسیلات زر پاکستان کی لائف لائن، پالیسی تسلسل یقینی بنائیں گے: وزیر خزانہ
  • ٹک ٹاک بارے معاہدہ طے، عوام دوبارہ موقع دے امریکا کو مضبوط بنائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سیکیورٹی دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا
  • ایشیا کپ، اگلے چند گھنٹوں میں پی سی بی اپنا مؤقف دے گا
  • آصفہ بھٹو نے سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین کی مہم کو سنگ میل قرار دیدیا
  • ایچ پی وی سے بچاؤ کی ویکسین لگانا بہت ضروری ہے، وزیر صحت سندھ