صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
ایک تجزیہ کار نے درست کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں ہرکوئی لیڈر اور ان کا اپنا اپنا بیانیہ ہے جو بھی بانی سے مل کر آتا ہے وہ اپنا ہی بیان دیتا ہے۔ بانی کی ہمشیرہ نے جو بیان دیا تھا تجزیہ کاروں کے نزدیک وہ ایک بہن کا ذاتی بیان تھا جس کے بعد ایک وضاحت سامنے آگئی ہے کہ وہ بانی یا پارٹی کا نہیں علیمہ خان کا ذاتی بیان تھا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بانی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے ایسے مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ ’’کچھ لو،کچھ دو‘‘ پر لوگوں نے مس گائیڈ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر نے اپنی چھوڑی ہے کہ ہمارے کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے جب کہ بعض دیگر رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات چلتے رہتے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ ایسے مذاکرات اندرون خانہ چلتے رہتے ہیں جو کھلے عام نہیں ہوتے یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے ساتھ جو مذاکرات کیے تھے وہ خفیہ نہیں اعلانیہ تھے جن سے پی ٹی آئی کے بانی نے چلنے نہیں دیا تھا اور ختم کرا دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں حکومت بے اختیار ہے جس سے مذاکرات کامیاب ہو ہی نہیں سکتے، اسی لیے وہ صرف بالاتروں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر تیار ہوں کیونکہ وہی اس سلسلے میں بااختیار ہیں۔
بانی جن کو با اختیار کہہ کر جن کے لیے وہ اپنے دروازے کھلے رکھ کر مذاکرات کے لیے تیار بیٹھے ہیں وہ خفیہ ملاقاتوں پر یقین ہی نہیں رکھتے اور ملاقات کے لیے بانی کی طرف سے دی گئی درخواست تک نہیں پڑھتے اور حکومت کو بھیج کر پیغام دے دیتے ہیں کہ ہم نے بانی سے کوئی مذاکرات نہیں کرنے اس لیے ہماری بجائے حکومت سے مذاکرات کریں۔
اسٹیبلشمنٹ کے صاف جواب سے صاف ظاہر ہے کہ بانی کو صرف حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے ہمیں مذاکرات کرنے کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو الگ الگ بیان دیتے ہیں، کسی کو کچھ کہتے ہیں اور کسی کو کہتے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے بالاتروں سے مذاکرات پر تیار ہوں جیسے ان سے بالاتروں کی طرف سے مذاکرات کے لیے کوئی درخواست کی گئی ہو، جس پر بانی آمادہ ہو کر اپنا دروازہ کھولے بیٹھے ہیں جب کہ وہ آنا ہی نہیں چاہتے۔ کوئی کہتا ہے کہ بانی پاکستان کے لیے کچھ لو کچھ دو پر تیار ہیں جس کی بیرسٹر گوہر تردید کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سزا یافتہ بانی جیل میں قید اور ان کا دروازہ باہر سے بند ہے جسے وہ خود کھول نہیں سکتے اور کہتے ہیں کہ بالاتروں کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے جو درحقیقت کھلا نہیں، بند ہے اور بند دروازہ کھلوانے کے لیے بار بار ملاقات کی درخواستیں کی جا رہی ہیں جو ملنا ہی نہیں چاہ رہے تو ان سے ملاقات کے لیے کیوں کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے اور پاکستان کے لیے میں ان سے ملنے کو تیار ہوں مگر دوسری طرف سے کوئی جواب ہی نہیں آ رہا۔
ممکن ہے کہ دوسری طرف سے بانی سے ملنے کی کوئی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جا رہی کہ بانی پی ٹی آئی نہ حکومت میں ہے نہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے بلکہ وہ سزا یافتہ ہے جس کی رہائی کے لیے دروازہ کھولنے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے اور بانی ضمانت پر رہائی کے لیے رجوع بھی کر چکے ہیں اس لیے انھیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔
علیمہ خان کے بیانات پر خود پی ٹی آئی میں بھی تحفظات ہیں اور پارٹی رہنما ان کے بعض بیانات کی تردید کرتے ہیں اور تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے بیانات پارٹی پالیسی نہیں بہن کے جذبات ہیں ۔ ویسے سینیٹر علی ظفر اور علیمہ خان کے بیانات میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور دونوں نے کچھ لو کچھ دو کے بیانات دیے ہیں۔ علیمہ خان نے یہ بھی پوچھ لیا ہے کہ وہ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟بانی پاکستان کے لیے نہیں اپنی رہائی کے لیے بالاتروں کو کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ ملنا چاہیں مگر وہ بانی سے ملیں کیوں اور نہ انھیں کوئی ضرورت یا سیاسی مذاکرات کی خواہش ہے ان کی ضروریات صرف حکومت ہی پوری کر سکتی ہے۔
بانی کا بھی یہ حال ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، وہ اپنی باعزت رہائی بھی چاہتے ہیں اور منت اور ترلے بھی ہو رہے ہیں۔ بانی کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں لینے کے لیے جیل سے رہائی ہے۔ لو اور دو کے دلائے جانے والے بیانات این آر او ہی تو ہیں ، اب ان کے پاس صرف بالاتر رہ گئے ہیں جنھیں وہ بلاتے ہیں جو آئیں گے نہیں، اس لیے بانی کو صرف عدالتی رہائی کا ہی انتظار ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مذاکرات کے لیے پاکستان کے لیے پی ٹی آئی کے سے مذاکرات علیمہ خان کے بیانات ان کے لیے بھی نہیں رہے ہیں کہ بانی ہیں اور ہی نہیں ہے اور ہیں کہ اس لیے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)