مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق مودی حکومت کے ترقی کے دعوئوں کے بالکل برعکس ہیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ بھاری ٹرانسفارمر، تعمیراتی سامان، راشن اور یہاں تک کہ مریضوں کو کئی کلومیٹر تک پیدل لے جانے پر مجبور ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کی طرف سے ترقی کے دعوئوں کے باوجود زمینی حقائق بالکل مختلف کہانی سنا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ترقی کے دعوئوں اور وعدوں کے برعکس بہت سے علاقوں کے مکینوں کو بنیادی ڈھانچے کے شدید فقدان کا سامنا ہے جو ٹرانسپورٹ اور دیگر سروسز کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھاری الیکٹرک ٹرانسفارمر اپنے کندھوں پر اٹھائے میلوں تک لیجانے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مودی حکومت کی طرف سے کئے گئے ترقی اور امن کے دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ جموں خطے کے ضلع رامبن سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 20 سے زیادہ افراد اپنے کندھوں پر الیکٹرک ٹرانسفارمر کو ایک کھڑی پہاڑی سے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھاری ٹرانسفارمر کو لوہے کے پائپوں سے باندھا گیا ہے تاکہ اس کو کھاری مہوروڑ تک لے جانے میں آسانی ہو۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ خراب ٹرانسفارمر کو تحصیل کھاری کے گائوں بزلہ سے مین روڈ پر منتقل کیا جا رہا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ سڑک کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ بھاری ٹرانسفارمر، تعمیراتی سامان، راشن اور یہاں تک کہ مریضوں کو کئی کلومیٹر تک پیدل لے جانے پر مجبور ہیں۔ مقامی لوگوں میں سے ایک نے بتایا کہ ہم بیماروں کو اسی طرح اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں کیونکہ سڑک کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایمبولینسز ہم تک نہیں پہنچ سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی عدم موجودگی کی وجہ سے مقامی لوگوں کے دعوئوں
پڑھیں:
تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘
یہ بھی پڑھیں:
صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘
طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔
مزید پڑھیں:
سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلیج سرخ سعودی عرب لاری