ایٹمی جنگ اور اس کے مابعد مہلک اثرات
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ کے پس و پیش کا باریک بینی پر مبنی جائزہ بتاتا ہے کہ اس جنگ کو بھی اسلحہ بیچنے کے لیے دونوں ملکوں پر مسلط کیا گیا۔ پاک بھارت کی اس جنگ میں یہ فلسفہ غلط ثابت ہو گیا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان روایتی جنگ نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ ایٹم بم ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ بھارتی پنجاب کے براہموس میزائل ڈپو پرخطرناک ریڈی ایشن کو رپورٹ کیاگیا، جبکہ پاکستان سرگودھا میں کیرانہ کی پہاڑیوں کے گردونواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونےوالےاسی طرح کےاثرات کو نمایاں کوریج دی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد ’’حالیہ تنائو‘‘،جنگ بندی کے باوجود دونوں ممالک کی طرف سے اسلحہ خریداری کی بنا پر کم نہیں ہوا بلکہ مزیدبڑھا ہے، جس وجہ سے ساوتھ ایشیامیں نیوکلیئر سیفٹی کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ پاک بھارت جنگ گو کہ بڑے دورانیہ کی نہیں تھی مگر اس کے علاقائی، سیکورٹی اور ماحولیاتی اثرات کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ جب بھارت نے پاکستان کے سٹریٹیجک ایٹمی اثاثے رکھنے والے مقام پر حملہ کیا تو میڈیا پر کیمیائی اخراج اور اثرات کے پھیلاو’ کی چہ میگوئیاں ہوئیں۔ اس حوالے سے اطلاعات میں اس وقت شدت دیکھنےمیں آئی جب سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ پاکستان کے اس علاقے میں ایک امریکی اٹامک ایمرجنسی ایئرکرافٹ کو اڑتے دیکھاگیا تھا، حالانکہ پاکستان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی تھی، جبکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(IAEA) نے تصدیق کرتے ہوئےبیان جاری کیا کہ پاکستان کےکسی علاقے میں کیمیائی ریڈی ایشن نہیں ہوئی ہے۔ اس مدمیں انڈیاکو بھی بیان جاری کرناپڑاکہ اس نےپاکستان کےکسی نیو کلیائی ہتھیار رکھنے والے ٹھکانے پر حملہ نہیں کیا تھا۔اس کےعلاوہ پاکستان کی وزارت خارجہ نےبھی ایک وضاحتی بیانیہ جاری کیا کہ اس قسم کی منفی افواہ پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے بھارتی میڈیا نے پھیلائی ہے۔ اس قسم کے ایٹمی اثرات ماحول میں پھیل جائیں اور پلوٹونیم 239، آئیوڈین 131 اور سیسئیم 137 کے ریڈیو ایکٹو آئزوٹوپس بننے لگیں تو یہ انسانوں میں کینسر،اغضا کی بندش اور اموات کا باعث بنیں گےجبکہ ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ جہاں یہ کیمیائی اخراج ظاہر ہو گا وہاں کی زمین ایک مدت تک فصلیں اگانے سے بھی قاصر ہو جائے گی۔ان خبروں اور افواہوں کے دوران جنہیں خود بھارتی میڈیا نے پھیلایا تھا، انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مطالبہ کیا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی جانچ پڑتال کرے۔ بھارتی وزیردفاع کے اس بیان سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی، فوجی اورجنگی عدم اعتماد کی خلیج مزیدگہری ہو گئی ہے۔
بھارت میں امکانی طور پر ظاہر ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں کے اس اخراج کی جھوٹی خبر بنیادی طور پر بھارتی براموس میزائل ٹھکانے پرپاکستان کے ہوائی حملے کے بعد پھیلائی گئی جس کےتحت انڈیا کےاٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈنے آن لائن دعوی کیاکہ اس حملے سے بھارت کے ان علاقوں میں کیمیائی اخراج ہوا ہےکیونکہ وہاں کچھ کیمیائی ہتھیار چلائے گئے تھےجس کے بعد انڈیا کے ان علاقوں کو عوام سے خالی بھی کروایا گیا تھا اور انہیں اس سے بچائوکے لئےاحتیاطی تجاویز بھی دی گئیں تھیں لیکن بعد میں بھارتی سرکار اپنے ان بیانات سے مکر گئی اور ان خبروں کی سرکاری طور پر تردید کر دی۔تاہم اس واقعہ سے عالمی سطح پر اس بات کی کھل کر تصدیق ہو گئی ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان اگر روایتی ہتھیاروں سے بھی جنگ ہوتی ہے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کتنی قریب پہنچ جاتی ہے جس سے پوری دنیا تباہی کے کنارے پر آن کھڑی ہوتی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر پانچ کلو وزنی ایٹم بم استعمال کیئے گئے تھے جس سے پہلے ہی دن لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے، جبکہ پاکستان اور انڈیا کے پاس ان ایٹم بموں سے دس گنا زیادہ وزنی اور مہلک ایٹم بم موجود ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے کہ پاکستان کے درمیان
پڑھیں:
حادثات، ہلاکتیں اور بدنامی: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیاروں سے جان چھڑانے کا فیصلہ
بھارتی فضائیہ میں 62 سال سے زیراستعمال روسی ساختہ مگ 21 جنگی طیاروں کا باب بالآخر بند ہونے جا رہا ہے، جب کہ ان کی جگہ اب بھارت میں تیار کردہ تیجس مارک-1 اے طیارے لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی فضائیہ کا مگ 21 طیارہ حادثے کا شکار، 3 افراد ہلاک
بھارتی میڈیا کے مطابق مگ 21 طیاروں کا آخری اسکواڈرن 19 ستمبر 2025 کو باضابطہ طور پر فضائی بیڑے سے نکال دیا جائے گا۔ ان طیاروں کو کئی دہائیوں سے بھارتی فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا تھا، تاہم ان کے خطرناک ریکارڈ نے بالآخر ان کی سروس کا خاتمہ یقینی بنا دیا۔
رپورٹس کے مطابق بھارت نے مجموعی طور پر 876 مگ 21 طیارے حاصل کیے تھے، جن میں سے 490 مختلف حادثات کا شکار ہوئے۔ ان واقعات میں 200 سے زائد بھارتی پائلٹ اور 60 سے زیادہ شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان خطرناک اعداد و شمار کے باعث بھارتی پائلٹ ان طیاروں کو ’فلائنگ کوفن‘ (اڑتا تابوت) کے نام سے پکارتے تھے۔
مگ 21 اس وقت بھی عالمی خبروں کی زینت بنا تھا جب 27 فروری 2019 کو پاک فضائیہ کے آپریشن “سوئفٹ ریٹورٹ” میں بھارت کے ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کا مگ 21 طیارہ مار گرایا گیا تھا اور وہ خود بھی گرفتار ہو گئے تھے۔
ان طیاروں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں سمیت، کارگل جھڑپوں، آپریشن سندور اور بالاکوٹ حملے میں بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم اب بھارت نے ان کی جگہ گھریلو ساختہ تیجس طیاروں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی جنگی طیارے ’اڑتے تابوت‘ بن گئے، 550 سے زائد فضائی حادثات، 150پائلٹس ہلاک
دلچسپ بات یہ ہے کہ مارچ 2024 میں تیجس طیاروں کی پہلی کھیپ بھارتی فضائیہ کو ملنی تھی، لیکن تاخیر کے باعث اب تک یہ طیارے فراہم نہیں کیے جا سکے، جس کے نتیجے میں مگ 21 کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی فضائیہ کے لڑاکا اسکواڈرن کی تعداد صرف 29 رہ جائے گی جو کئی دہائیوں کے دوران کم ترین سطح ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews باب بند بھارتی فضائیہ بیڑے سے باہر حادثات فیصلہ مگ 21 وی نیوز