آپریشن سندور میں فوج کا 15 فیصد وقت جعلی خبروں میں ضائع ہوا، بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف نے اپنی ہی فوج کی نااہلی کا پول کھول دیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔04 جون 2025)بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے اعتراف کیا ہے کہ آپریشن سندور کے دوران فوج کا 15 فیصد وقت جعلی خبروں میں ضائع ہوا، پاکستان سے جنگ میں بدترین شکست پر بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف نے اپنی ہی فوج کی نااہلی کا پول کھول دیا،میڈیا رپورٹس کے مطابق آپریشن سندور کے دوران بھارتی فوج کو ہونے والے ایک اور نقصان سے متعلق اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔
جنرل انیل چوہان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران سائبر حملوں، جھوٹی خبروں اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے باعث بھارتی فوج کو نہ صرف فیصلہ سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حقیقی زمینی صورت حال کا ادراک بھی کئی مواقع پر نہیں ہو سکا۔سائبر حملے، جھوٹی خبریں اور غیر حقیقی دعوے، بھارت کا بیانیہ خود اس کے گلے پڑ گیا۔(جاری ہے)
جنرل انیل چوہان کے اس بیان نے بھارت کے ان دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جن میں وہ خود کو جدید ٹیکنالوجی اور ریئل ٹائم انٹیگریشن کی حامل افواج قرار دیتا رہا ہے۔
جدید جنگ کی بڑی بڑی باتیں کرنے والا بھارت، ریئل ٹائم انٹیگریشن کے دعووں سمیت میدان جنگ میں بری طرح بے نقاب ہو گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اعتراف نے نہ صرف بھارتی افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کے دفاعی دعووں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ آپریشن سندور جو بھارتی حکومت نے خوش فہمی کی بنیاد پر شروع کیا تھا اب خود مودی سرکار کے چہرے کا کلکنک بن چکا ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل بھی بھارتی افواج کے چیف آف ڈیفنس نے آخرکار بھارتی طیاروں کے تباہ ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی فضائی جھڑپوں میں ہمارے کئی لڑاکا طیارے تباہ ہوئے تھے۔ بھارت کے چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان نے یہ اعتراف سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ میں شرکت کے دوران امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تھا۔ بھارتی فوج نے پہلی بار مئی میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں میں غیر متعین تعداد میں لڑاکا طیاروں کو کھونے کی تصدیق کردی تھی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی افواج کے چیف آف ڈیفنس جنرل چوہان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ تھی کہ غلطی کہاں ہوئی، کیا کوتاہیاں رہیں اور کس وجہ سے طیارے گرے۔ تعداد کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جنرل انیل چوہان نے کہا تھا کہ اہم بات یہ نہیں تھی کہ طیارے گرائے گئے بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرائے گئے۔ جو غلطیاں ہوئیں وہ سب سے اہم تھے۔ گفتگو کے دوران جنرل چوہان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو بھی رد کیا تھا کہ امریکہ نے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کو روکاتھا۔ چوہان کے مطابق یہ دعویٰ ”غیر حقیقی“ تھا کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے قریب نہیں پہنچے تھے۔بھارتی جنرل نے پاکستان کی جانب سے چینی ساختہ ہتھیاروں کے استعمال کو بھی غیر موثر قرار دینے کی کوشش کی حالانکہ میدان جنگ کے نتائج ان کے اس دعوے کی نفی کرتے تھے۔بھارت کے اس اعتراف نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی تھی اور پاکستانی موقف کو تقویت ملی ہے کہ بھارت نے بلااشتعال حملے کئے اور پاکستان نے بھرپور دفاع کرتے ہوئے دشمن کے طیارے گرا کر اسے منہ توڑ جواب دیا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان چوہان نے کے دوران کا کہنا تھا کہ
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔