Islam Times:
2025-11-02@04:40:48 GMT

امریکی تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے، سید عباس عراقچی

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

امریکی تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے، سید عباس عراقچی

اپنے ایک انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مقاومت کوئی فرد یا تنظیم نہیں، بلکہ ایک آزادی کی تحریک ہے جو شہیدوں کے خون سے زندہ ہے اور جاری رہے گی۔ قائدین کی شہادت نے مقاومت کو کمزور نہیں بلکہ اسے مزید مضبوط کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ شب اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے لبنانی چینل المنار کو انٹرویو دیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ تہران اور بیروت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ انہوں نے بیروت جانے والی براہ راست ایرانی پروازوں کی بندش پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی فنی یا عملی رکاوٹ کا جائزہ لینے اور اسے حل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ خوش قسمتی سے لبنان بھی حقیقی عزم رکھتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معمول کے مطابق براہ راست پروازیں بحال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم لبنان کے ساتھ سیاسی، معاشی اور تجاری تعلقات کو باہمی احترام کے دائرے میں فروغ دیں گے۔ ایران اور لبنان کے تعلقات کو اپنے فطری راستے پر واپس آنا چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے لبنانی حکام میں بھی مثبت ارادہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران، لبنان کی تعمیر نو میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ ایرانی کمپنیوں کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اگر سرکاری سطح پر درخواست کی جائے تو ہم مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔
  اپنے انٹرویو کے دوسرے حصے میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ حزب‌ الله ایک خود مختار لبنانی تحریک ہے۔ تہران، لبنان کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے دورہ بیروت اور مرقد شهید "سید حسن نصر الله" کی زیارت کو ایک دل کو چھو لینے والا لمحہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید سید حسن نصر الله کی قبر پر حاضری ہمارے لئے بہت دردناک ہے۔ ہم نے اس عظیم شہید سے سیکھا کہ ایک قیادت کے ہاتھ گرنے والا پرچم دوسری قیادت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ سید عباس عراقچی نے لبنان پر ایرانی بالادستی جیسے الزامات یا مقاومت کو ایرانی پراکسیز کہنا لبنان دشمنوں کے من گھڑت الزامات قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ ایک آزاد لبنانی تحریک ہے جو اپنے ملک کے سیاسی اور سماجی میدان میں سرگرم ہے۔ یہ تحریک ایران کا بازو نہیں بلکہ اس کے فیصلے مکمل طور پر قومی ہیں اور لبنان کے مفادات کے مطابق ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم لبنان کے معاملات میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں۔ مقاومت کا مسلح ہونا یا نہ ہونا لبنان کا اندرونی معاملہ ہے۔ جسے لبنان کی حکومت اور عوام کے درمیان قومی مکالمے کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔

سید عباس عراقچی نے صیہونی رژیم کو جارحیت، قبضے اور جرائم کا مجموعہ قرار دیا۔ انہوں نے عالمی برداری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ تل ابیب، بیروت کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کوئی فرد یا تنظیم نہیں، بلکہ ایک آزادی کی تحریک ہے جو شہیدوں کے خون سے زندہ ہے اور جاری رہے گی۔ قائدین کی شہادت نے مقاومت کو کمزور نہیں بلکہ اسے مزید مضبوط بنایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شہید سید حسن نصراللہ کا خون مقاومت کو نئی قوت دے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام کی اسٹریٹجک اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یورینیم کی افزودگی، ایرانی سائنسدانوں کی سب سے بڑی علمی کامیابی ہے، جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ عمل نہ صرف ملک کی صنعتی اور طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ تیار کردہ ریڈیو آئسوٹوپس سالانہ دس لاکھ سے زائد ایرانی مریضوں کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔  

سید عباس عراقچی نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ہمارے سائنسدانوں نے اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس لیے ہم دباؤ میں نہیں آئیں گے اور پُرامن جوہری توانائی کے اپنے جائز و قانونی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ جوہری مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کی تفصیلات بات چیت کے کمرے تک ہی محدود رہنی چاہئیں۔ ہم امریکی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں اور مناسب وقت پر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف کسی بھی دراندازی کا سخت جواب دیا جائے گا۔ ہماری دفاعی صلاحیتیں اتنی اعلیٰ سطح پر ہیں کہ جس کی وجہ سے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا انتہائی مشکل ہے۔ ہمارا بنیادی ڈھانچہ اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ حملے کی صورت میں جوہری پروگرام کو فیصلہ کن نقصان پہچانا ممکن نہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید عباس عراقچی انہوں نے کہا کہ مقاومت کو تحریک ہے لبنان کے کے لیے

پڑھیں:

لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔

اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔

یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔

خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • سوڈان کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کا تبصرہ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن کی ملاقات، مختلف امور اور تجاویز پر تبادلہ خیال
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی
  • ایرانی و مصری وزرائے خارجہ کی غزہ، لبنان اور جوہری مسائل پر گفتگو
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • امریکی دھمکیوں اور اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے کچھ بدلے گا نہیں ہوگا، شیخ نعیم قاسم
  • امریکا کا جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ غیرذمہ دارانہ ہے: ایرانی وزیرخارجہ
  • افغان طالبان ہماری تجاویز سے متفق مگر تحریری معاہدہ کرنے پر تیا رنہیں، رانا ثنااللہ