لیبیا: حکومتی حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے لیبیا میں سکیورٹی ادارے کے حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے انکشافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان جگہوں کو فوری طور پر بند کرنے اور ایسے واقعات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ سرکاری و غیرسرکاری حراستی مراکز پر تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے انکشافات اس معاملے میں اقوام متحدہ کے معاون مشن، حقائق کی تلاش کے لیے ادارے کے غیرجانبدارانہ مشن اور عینی شاہدین کی تصدیق کرتے ہیں جو بتاتے آئے ہیں کہ ان جگہوں پر لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
Tweet URLان کا کہنا ہے کہ ایسی جگہوں سے درجنوں لاشیں دریافت ہوئی ہیں جبکہ تشدد اور بدسلوکی میں استعمال ہونے والے آلات بھی ملے ہیں۔
(جاری ہے)
ممکنہ طور پر یہاں لوگوں کو ماورائے عدالت ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔انہوں نے ان جگہوں پر جرائم کی تمام شہادتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ ایسے واقعات کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہو سکے۔
تشدد زدہ لاشیںوولکر ترک نے ایسی اطلاعات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ لیبیا کے فارنزک حکام کو انسانی باقیات زمین سے نکالنے اور لاشوں کی شناخت کرنے کے لیے کھدائی کی جگہوں تک رسائی نہیں دی گئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکام کو ایسی تمام جگہوں پر مکمل اور بلارکاوٹ رسائی فراہم کی جائے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کو اطلاع ملی تھی کہ طرابلس کے علاقے ابوسالم میں 'سٹیبلائزیشن سپورٹ آپریٹس' (ایس ایس اے) کے ہیڈکوارٹر سے 10 سوختہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔علاوہ ازیں ابولسالم اور الخدارا میں مردہ خانوں سے بھی 67 لاشیں ملی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، ان میں بعض لاشیں ہسپتال میں بجلی کی قلت کے باعث گلنا سڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ فی الوقت ان میں سے کسی کی شناخت نہیں ہو سکی۔ طرابلس کے چڑیا گھر میں ایک قبرستان دریافت ہونے کی اطلاع بھی ہے جو 'ایس ایس اے' کے زیرانتظام تھا۔
ہائی کمشنر نے حکام سے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو ان جگہوں تک فوری رسائی دیں تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی تفصیلات جمع کی جا سکیں۔
حقوق کے تحفظ کا مطالبہیہ جگہیں گزشتہ ہفتے 'ایس ایس اے' کے سربراہ عبدالغنی کیکلی کی ہلاکت کے بعد دریافت ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ریاستی سکیورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں تشدد کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
جھڑپوں میں متعدد شہری اور پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے جبکہ شہری تنصیبات بشمول ہسپتالوں کو بھاری نقصان پہنچا۔
انہوں نے لیبیا کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ 'ایس ایس اے' کے سربراہ کی ہلاکت اور تمام فریقین کی جانب سے حقوق کی پامالیوں اور خلاف ورزی کے واقعات کی فوری اور جامع تحقیقات کو یقینی بنائیں۔
لیبیا کے لوگوں نے سچائی اور انصاف کے لیے اپنے مطالبات کا واضح اظہار کیا ہے۔ وہ پرامن اور محفوظ زندگی چاہتے ہیں جس میں ان کے انسانی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور آزادیوں کو مقدم رکھا جائے۔
انہوں نے ملک میں تمام ذمہ دار سیاسی و عسکری کرداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی قیادت اور اختیار سے کام لیتے ہوئے لیبیا کے لوگوں کے انسانی حقوق کو تحفظ دیں۔ انہوں نے ان کرداروں اور ان پر اثرورسوخ رکھنے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں عبوری حکومتوں کے سلسلے کا خاتمہ کریں اور مکمل و مشمولہ جمہوریت کا قیام ممکن بنائیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ ایس ایس اے لیبیا کے انہوں نے ان جگہوں ہے کہ وہ حقوق کی
پڑھیں:
محبوبہ مفتی کا سرکاری ملازمین کی جبری برطرفی پر سخت اظہار تشویش
انہوں نے کہا کہ مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائی کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھارتی قابض انتظامیہ کی طرف سے دو سرکاری ملازمین کی جبری برطرفی پر سخت تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو بے اختیار کرنے کی بڑے پیمانے پر مہم جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ دو اور سرکاری ملازمین کو جدوجہد آزادی کشمیر سے تعلق کو بنیاد بنا کر برطرف کیا گیا ہے اور انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائی کو مزید تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم سے وابستہ غلام حسین اور ماجد اقبال ڈار کو آئین کی دفعہ 311(2)(c) کے تحت برطرف کیا گیا، جس کے تحت قابض حکام کو ریاستی تحفظ کی آڑ میں بغیر انکوائری کے ملازمین کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ محبوبہ مفتی نے افسوس ظاہر کیا کہ بھارتی قابض انتظامیہ قومی سلامتی کی آڑ میں 2021ء سے اب تک 80 سے زائد کشمیری سرکاری ملازمین کو برطرف کر چکی ہے۔