کم عمری کی شادی کیخلاف دارالحکومت میں نافذالعمل قانون وفاقی شرعی عدالت میں چیلینج
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
دارالحکومت اسلام آباد کے لیے حال ہی میں متعارف کرائے گئے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025 کی آئینی حیثیت اور اسلامی جواز کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے، مذکورہ بل کے تحت لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کم از کم 18 سال مقرر کی گئی ہے۔
مذکورہ بل کیخلاف درخواست شہری شہزادہ عدنان نے اپنے قانونی وکیل ایڈووکیٹ مدثر چوہدری کے توسط سے وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی ہے، جس میں وزارت داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ نیا قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے، اپنے موقف کی تائید میں متعدد قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ قانون قرآن، سنت اور احادیث کے برخلاف اور اسلامی فقہ میں وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کم عمری کی شادی کیخلاف قانون سازی، صدرِ مملکت نے دستخط کر دیے، خلاف ورزی پر سخت سزائیں نافذ
درخواست گزار نے مزید استدلال کیا ہےکہ قانون میں بیان کردہ سزا، سخت مشقت کے ساتھ قید بھی غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے، اور اسے کسی ایسے فعل کی حد سے زائد سزا قرار دیا جو ان کے خیال میں اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ریاست کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس چیز کو جرم بنائے جو اسلام میں حرام نہیں ہے۔ شادی پر سخت سزائیں اور قانونی پابندیاں شہریوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
درخواست گزار نے وفاقی شرعی عدالت پر زور دیا کہ وہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025 کو کالعدم قرار دے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج شدہ قانون کے تحت مقدمات کے اندراج سے روکنے کا حکم جاری کرے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی پر فلم ’سلمیٰ۔ خاموش چیخ‘ ریلیز
واضح رہے کہ صدر آصف زرداری نے 30 مئی کو اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025 پر باضابطہ طور پر دستخط کیے تھے، جو کہ وفاقی دارالحکومت میں کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے ایک اہم قانون سازی سمجھی جاتی ہے۔
نیا قانون پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق ہے، دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کی شادی پر پابندی کو اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
نیا قانون پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق ہے، دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کی شادی پر پابندی کو اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلامی نظریاتی کونسل بچوں کے حقوق چیلنج شادی کم عمری وزارت داخلہ وفاقی شرعی عدالت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل بچوں کے حقوق چیلنج وزارت داخلہ وفاقی شرعی عدالت وفاقی شرعی عدالت کم عمری کی شادی حقوق کے گیا ہے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔