بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن بے تاب بھی نہیں، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ان کا ملک روایتی حریف بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے "تیار ہے لیکن وہ اس کے لیے بے تاب بھی نہیں ہے۔"
مئی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان چار دن کی جھڑپوں کے دوران جنگی طیاروں، میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا تھا، جس کے بعد سے جنگ بندی نافذ ہے، تاہم فریقین میں تعلقات اب بھی کشیدہ ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "جب بھی وہ (بھارت) بات چیت کے لیے کہیں گے، کسی بھی سطح پر، تو وہ ہمیں تیار پائیں گے، لیکن ہم اس کے لیے بے تاب بھی نہیں ہیں۔"
آئی ایس آئی اور را میں باہمی تعاون سے دہشت گردی کم ہو سکتی ہے، بلاول بھٹو
سیاسی بیان بازی کے سبب کشیدگی برقرارڈار نے کہا کہ پاکستان پانی سمیت متعدد مسائل پر جامع مذاکرات چاہتا ہے، جب کہ بھارت صرف دہشت گردی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
(جاری ہے)
اسحاق ڈار نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی ہو چکی ہے، تاہم سیاسی تناؤ برقرار ہے، جو بھارتی رہنماؤں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات سے بڑھتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ مودی نے حال ہی میں بہار میں آئندہ انتخابات سے متعلق ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ چند روز کی لڑائی تو "صرف ایک ٹریلر" تھا۔
کیا پاکستان بدل رہا ہے؟
ڈار نے کہا کہ "ممکنہ طور پر اندرونی وجوہات کی بنا پر، سیاسی بیان بازی ابھی بھی جاری ہے۔
کاش منطق غالب رہے۔ ہم امن پسند ہیں، معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، لیکن وقار، خودمختاری اور علاقائی سالمیت سب سے پہلے آتی ہے۔"انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ان تبصروں کا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بات چیت صرف دہشت گردی پر ہی ہو گی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ایسا جاری نہیں رہ سکتا۔ ہم سے زیادہ سنجیدہ کوئی اور نہیں ہے۔
تاہم تالی بجانے کے لیے دو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔"بھارت نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ان بیانات پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم امکان ہے کہ نئی دہلی میں جمعرات کے روز کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اس پر کوئی رد عمل ظاہر کیا جائے۔
پاکستانی وفد کی ’پانی کو ہتھیار بنانے کے لیے‘ بھارت پر تنقید
اس سے قبل نئی دہلی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے صرف ایک ہی معاملہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کو خالی کرنا۔
واضح رہے کہ متنازعہ خطہ کشمیر پر دونوں ممالک مکمل طور پر اپنا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور فی الوقت ان کے پاس جزوی طور پر اس کا کنٹرول ہے۔
اسحاق ڈار نے عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی پیغام کو فروغ دینے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد کے فعال کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی روس، ترکی اور ایران سمیت بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ روابط نے اس کی سفارتی حیثیت کو نمایاں طور پر مستحکم کیا ہے۔
بھارتی قیادت کے ریمارکس 'انتہائی پریشان کن ذہنیت' کے عکاس ہیں، پاکستان
انہوں نے خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ترکی کے مثبت سفارتی نتائج کو نوٹ کیا، جس سے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
جامع مذاکرات میں امریکی کردار کی اہمیتادھر واشنگٹن میں امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کو آسان بنانے میں مدد کے لیے "کریڈٹ" کے مستحق ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ امریکی صدر کیا کہہ رہے ہیں۔ دس مختلف مواقع پر، انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں سہولت کاری کا سہرا لیا ہے اور یہ بجا طور پر ہے۔ وہ اس کریڈٹ کے مستحق ہیں، کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی جنگ بندی کو ممکن بنانے میں مدد ملی۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "اس لیے اگر امریکہ اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادہ ہے، تو اس بات کی توقع کرنا مناسب ہے کہ جامع مذاکرات کے لیے امریکی کردار بھی ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔
"بھارت عوامی طور پر اس بات کی تردید کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کیا تھا اور نئی دہلی دو طرفہ مسائل میں تیسرے فریق کی ثالثی کو بھی مستقل طور پر مسترد کرتا ہے۔
پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ
بلاول بھٹو زرداری کے ان بیانات کا مقصد جنوبی ایشیا میں امریکہ کو زیادہ فعال سفارتی کردار کی جانب متوجہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "جی ہاں، امریکہ کے پاس ایک اسٹیبلشمنٹ ہے، ایک سوچ کا نمونہ ہے۔ لیکن زمینی حقائق کو جانتے ہوئے، ہم وہم میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس شہر (واشنگٹن) کی حقیقتیں کیا ہیں، اس کی جغرافیائی سیاست کیا ہے، لیکن ہم یہاں اس لیے ہیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا پیغام سچائی کا پیغام ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرارداد کے مطابق ہے۔
" چین کے مقابلے میں بھارت کا تصور کھوکھلابلاول نے اس جانب کی بھی اشارہ کیا کہ بھارت کو علاقائی سلامتی کے اینکر کے طور پر تیار کرنے کی امریکی حکمت عملی ناکام ہے۔ نئی دہلی کی حالیہ پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "وہ نیٹ سکیورٹی فراہم کرنے والا دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گا، جب وہ خود اپنے لیے ایسا نہیں کر پا رہا ہے؟ انہیں دوسروں کی حفاظت کرنی تھی، لیکن وہ اپنے ہی طیاروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔
"پاکستانی وفد تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ آئے گا، ٹرمپ
بلاول نے کہا، "چین کے مقابلے میں بھارت کا تصور اب کھوکھلا لگتا ہے۔ اب یہ کاغذی ویژن بھی نہیں رہا۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر کا اب از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔"
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلاول بھٹو کہ پاکستان پاکستان کے اسحاق ڈار کرتے ہوئے نے کہا کہ بھی نہیں انہوں نے نئی دہلی بات چیت کے ساتھ کے لیے ڈار نے اب بھی
پڑھیں:
بھارت کی مذاکرات سے ہچکچاہٹ معنی خیز ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کی مذاکرات سے ہچکچاہٹ معنی خیز ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے انٹرویو میں پاک بھارت تعلقات، امریکی کردار اور خطے میں امن و استحکام پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے، پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ 1.7 ارب افراد کی تقدیر کو غیرریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹرمپ دور صدارت میں پاک امریکا تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ قبل ازیں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی کانگریس اراکین سے ملاقاتیں کی ہیں جس میں بلاول بھٹو نے پاک بھارت جنگ بندی میں غیر معمولی کردار اور مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے پر امریکی حکام اور ٹرمپ انتظامیہ سے اظہار تشکر کیا۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں امریکا کے اہم اراکین کانگریس سے ملاقاتیں کی ہیں، پاکستانی وفد چیئرمین امور خارجہ کمیٹی برائن ماسٹ، چیئرمین ذیلی کمیٹی امور خارجہ بل ہوزینگا، کانگریس مین بریڈ شرمین، گریگوری میکس سے بھی ملا۔ اس موقع پر پاک امریکا تعلقات مضبوط بنانے، اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت کی گئی اور جنوب ایشیا میں امن واسحتکام کو فروغ دینے کے امور پر بھی گفتگو کی گئی۔ پاکستانی وفد نے سینیٹرز جم بینکس، کرس وان ہولن اور سینیٹر کوری بوکر سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کیں۔ پاکستانی وفد کانگریس خارجہ امور ذیلی کمیٹی برائے جنوب اور وسط ایشیا سڈنی کملاگرڈو سے بھی ملا اور رکن کمیٹی برائے خارجہ امور رکن کانگریس ٹام کین جونیئر سے بھی ملاقات کی۔ جن دیگر اراکین کانگریس سے ملاقات کی گئی ان میں امریکی سینیٹر ایلیسا سلوٹکن اور کانگریس مین جان مولینار سے بھی شامل تھے، وفد نے علاقائی امن، بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کا موقف پیش کیا۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیے جانے کے بھارتی اقدامات کا نوٹس لیا جائے، سابق وزیر خارجہ نے پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکی قیادت کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ جارحیت کی بجائے ڈائیلاگ، ڈپلومیسی اور مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل نکالا جانا چاہیے۔ پاکستانی وفد نے جموں و کشمیر تنازعہ کے منصفانہ حل اور مذاکرات پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تجارتی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاک امریکا تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری روابط اورعوام کی بہتری کیلئے پل ہے۔ امریکی کانگریس اراکین نے پاکستان کے اقتصادی استحکام، امن کے اہداف کے لیے حمایت کا اعادہ کیا اور پاکستانی عوام سے اظہار یکجہتی اور معاشی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ متعلقہ خبریں