اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ان کا ملک روایتی حریف بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے "تیار ہے لیکن وہ اس کے لیے بے تاب بھی نہیں ہے۔"

مئی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان چار دن کی جھڑپوں کے دوران جنگی طیاروں، میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا تھا، جس کے بعد سے جنگ بندی نافذ ہے، تاہم فریقین میں تعلقات اب بھی کشیدہ ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "جب بھی وہ (بھارت) بات چیت کے لیے کہیں گے، کسی بھی سطح پر، تو وہ ہمیں تیار پائیں گے، لیکن ہم اس کے لیے بے تاب بھی نہیں ہیں۔"

آئی ایس آئی اور را میں باہمی تعاون سے دہشت گردی کم ہو سکتی ہے، بلاول بھٹو

سیاسی بیان بازی کے سبب کشیدگی برقرار

ڈار نے کہا کہ پاکستان پانی سمیت متعدد مسائل پر جامع مذاکرات چاہتا ہے، جب کہ بھارت صرف دہشت گردی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

اسحاق ڈار نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی ہو چکی ہے، تاہم سیاسی تناؤ برقرار ہے، جو بھارتی رہنماؤں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات سے بڑھتا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ مودی نے حال ہی میں بہار میں آئندہ انتخابات سے متعلق ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ چند روز کی لڑائی تو "صرف ایک ٹریلر" تھا۔

کیا پاکستان بدل رہا ہے؟

ڈار نے کہا کہ "ممکنہ طور پر اندرونی وجوہات کی بنا پر، سیاسی بیان بازی ابھی بھی جاری ہے۔

کاش منطق غالب رہے۔ ہم امن پسند ہیں، معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، لیکن وقار، خودمختاری اور علاقائی سالمیت سب سے پہلے آتی ہے۔"

انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ان تبصروں کا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بات چیت صرف دہشت گردی پر ہی ہو گی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ایسا جاری نہیں رہ سکتا۔ ہم سے زیادہ سنجیدہ کوئی اور نہیں ہے۔

تاہم تالی بجانے کے لیے دو ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔"

بھارت نے پاکستانی وزیر خارجہ کے ان بیانات پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم امکان ہے کہ نئی دہلی میں جمعرات کے روز کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اس پر کوئی رد عمل ظاہر کیا جائے۔

پاکستانی وفد کی ’پانی کو ہتھیار بنانے کے لیے‘ بھارت پر تنقید

اس سے قبل نئی دہلی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے صرف ایک ہی معاملہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کو خالی کرنا۔

واضح رہے کہ متنازعہ خطہ کشمیر پر دونوں ممالک مکمل طور پر اپنا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور فی الوقت ان کے پاس جزوی طور پر اس کا کنٹرول ہے۔

اسحاق ڈار نے عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی پیغام کو فروغ دینے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد کے فعال کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی روس، ترکی اور ایران سمیت بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ روابط نے اس کی سفارتی حیثیت کو نمایاں طور پر مستحکم کیا ہے۔

بھارتی قیادت کے ریمارکس 'انتہائی پریشان کن ذہنیت' کے عکاس ہیں، پاکستان

انہوں نے خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ترکی کے مثبت سفارتی نتائج کو نوٹ کیا، جس سے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔

جامع مذاکرات میں امریکی کردار کی اہمیت

ادھر واشنگٹن میں امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کو آسان بنانے میں مدد کے لیے "کریڈٹ" کے مستحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ امریکی صدر کیا کہہ رہے ہیں۔ دس مختلف مواقع پر، انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں سہولت کاری کا سہرا لیا ہے اور یہ بجا طور پر ہے۔ وہ اس کریڈٹ کے مستحق ہیں، کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی جنگ بندی کو ممکن بنانے میں مدد ملی۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس لیے اگر امریکہ اس جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادہ ہے، تو اس بات کی توقع کرنا مناسب ہے کہ جامع مذاکرات کے لیے امریکی کردار بھی ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔

"

بھارت عوامی طور پر اس بات کی تردید کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کیا تھا اور نئی دہلی دو طرفہ مسائل میں تیسرے فریق کی ثالثی کو بھی مستقل طور پر مسترد کرتا ہے۔

پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ

بلاول بھٹو زرداری کے ان بیانات کا مقصد جنوبی ایشیا میں امریکہ کو زیادہ فعال سفارتی کردار کی جانب متوجہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "جی ہاں، امریکہ کے پاس ایک اسٹیبلشمنٹ ہے، ایک سوچ کا نمونہ ہے۔ لیکن زمینی حقائق کو جانتے ہوئے، ہم وہم میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس شہر (واشنگٹن) کی حقیقتیں کیا ہیں، اس کی جغرافیائی سیاست کیا ہے، لیکن ہم یہاں اس لیے ہیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا پیغام سچائی کا پیغام ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرارداد کے مطابق ہے۔

" چین کے مقابلے میں بھارت کا تصور کھوکھلا

بلاول نے اس جانب کی بھی اشارہ کیا کہ بھارت کو علاقائی سلامتی کے اینکر کے طور پر تیار کرنے کی امریکی حکمت عملی ناکام ہے۔ نئی دہلی کی حالیہ پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "وہ نیٹ سکیورٹی فراہم کرنے والا دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گا، جب وہ خود اپنے لیے ایسا نہیں کر پا رہا ہے؟ انہیں دوسروں کی حفاظت کرنی تھی، لیکن وہ اپنے ہی طیاروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔

"

پاکستانی وفد تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ آئے گا، ٹرمپ

بلاول نے کہا، "چین کے مقابلے میں بھارت کا تصور اب کھوکھلا لگتا ہے۔ اب یہ کاغذی ویژن بھی نہیں رہا۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر کا اب از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیے۔"

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بلاول بھٹو کہ پاکستان پاکستان کے اسحاق ڈار کرتے ہوئے نے کہا کہ بھی نہیں انہوں نے نئی دہلی بات چیت کے ساتھ کے لیے ڈار نے اب بھی

پڑھیں:

زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد

حکومت کے دعوے کے مطابق 14 سال کے وقفے کے بعد مالی سال کا اختتام جاری کھاتے (Current Account) کے سرپلس کے ساتھ ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک (SBP) کو بیرونی کھاتہ منظم رکھنے میں مدد ملی، کیونکہ ملک مالی سال 2025-26 (FY26) میں داخل ہو چکا ہے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں جاری کھاتے کا سرپلس 2.105 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ سال یہ 2.072 ارب ڈالر خسارے میں تھا۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے بیرونی کھاتے کو دانشمندی سے سنبھالا، جس سے سرپلس برقرار رکھنے میں مدد ملی، اور اس نے زر مبادلہ کی شرح میں استحکام کو سہارا دیا۔ اس سرپلس سے اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے، لیکن بینکرز اور کرنسی ڈیلرز کا اندازہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال FY25 کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر خریدے۔بیشترماہرینِ مالیات اس بات پر متفق ہیں کہ نیا مالی سال FY26 مثبت پیش رفت کے ساتھ شروع ہوا ہے، جن میں جاری کھاتے کا سرپلس، مستحکم زرِمبادلہ کی شرح اور اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 14 ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ ذخائر شامل ہیں، نیز IMF پروگرام کا تسلسل بھی۔اس کے علاوہ، دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، جنہوں نے FY25 کے دوران تقریباً 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کیے۔ بیرونی کھاتے کی بہتر حالت کے پیشِ نظر FY26 میں مزید امداد کا امکان ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یقینا ایک بڑی کامیابی ہے جو14 سال کے وقفے کے بعدحاصل ہوسکی ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود زمینی حقائق اور صورت حال ملکی معیشت کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہبظاہر پاکستان ایک تضاد کا سامنا کر رہا ہے: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، ترسیلات زر کی بلند ترین سطح، اور پھر بھی ڈالرز ناپید۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ملک نے جون میں 2.1 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا، جس نے سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو 14 سال بعد پہلی بار مثبت بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات بھی 38.3 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ مستحکم ہے، لیکن یہ استحکام صرف کاغذات تک محدود ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طلبہ، مسافر، اور مریض، سبھی کو بینکوں سے زرمبادلہ حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ تضاد ایک گہرے ساختی مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہے ڈالرز ملک میں آ بھی رہے ہوں، وہ رسمی نظام کے ذریعے گردش نہیں کر رہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ غیر رسمی مارکیٹ ایک بار پھر پھلنے پھولنے لگی ہے۔ اوپن مارکیٹ اور سرکاری ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق (کرِب پریمیم) دوبارہ ابھر آیا ہے، جس کی وجہ سے ترسیلات زر رسمی ذرائع کے بجائے غیر رسمی چینلز کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ بینکوں کو ڈالر کی قلت طلب کی زیادتی کی وجہ سے نہیں، بلکہ رسمی نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے درپیش ہے۔ ایسے حالات میں برآمد کنندگان کی طرف سے آمدنی واپس نہ لانا اور تاجروں کی طرف سے کرنسی کی تبدیلی میں تاخیر فطری بات ہے۔ ایکسچینج ریٹ اگرچہ مستحکم ہے، لیکن اس پر یقین رکھنے والے کم ہی ہیں۔یہ اعتماد کی کمی کی علامت ہے، نہ کہ سرمایہ کی۔ حکومت کی انتظامی کنٹرول کی حکمتِ عملی جیسے درآمدات پر پابندیاں، غیر رسمی ایکسچینج ریٹ گائیڈنس، اور وقتی مراعات نے وقتی طور پر کچھ مہلت تو دی، مگر اعتماد بحال نہیں کر سکی۔ اب ان پالیسیوں میں دراڑیں نمایاں ہونے لگی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور گہرا تضاد موجود ہے۔ یہ سرپلس نہ تو برآمدات میں اضافے کی وجہ سے آیا ہے، نہ ہی عالمی مسابقت میں بہتری کی بدولت۔ بظاہر یہ صورتحال مصنوعی طور پر کم کی گئی درآمدات اور وقتی طور پر چھپائی گئی سرمایہ گری کی پیداوار ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری اکثر ”دباؤ سے” آتی ہے نہ کہ ”پیداوار سے”۔ یعنی اگر درآمدات بند کر دی جائیں، مشینری نہ منگوائی جائے، صنعتی خام مال محدود ہو، تو بظاہر سرپلس تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن معیشت کی نمو رک جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاشی بہتری کو صنعتی پیداوار، برآمدات اور روزگار میں اضافے کا ذریعہ بنائے، ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان اپنا زاویہِ نظر تبدیل نہیں کرتا، اُس کی بقا کی بحث سہ ماہی بنیادوں پر مالی خلا پورا کرنے تک محدود رہے گی۔ ملک کو مالی، مانیٹری، اور ادارہ جاتی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ نہ ہو، ہر سرپلس ایک سراب ہوگا، اور ہر بہتری عارضی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل اقتصادی ڈھانچے کی دل خوش کن تصویر پیش کرتے رہتے ہیں مگر ان تمام حکومتی دعووں اور اپنی کامرانیوں کے ڈنکے بجانے کے باوجود عوام کے چہروں پر ان کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل میں ریلیف کے حوالے سے خوشی کی کوئی رمق امڈتی نظر نہیں آتی اور اپنے اقتصادی مسائل کے معاملہ میں ان کا اضطراب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔بجلی پانی اور جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں بیجا اضافہ کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کیا جا چکا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوامی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ عوام میں کسی سطح پر بھی،کسی طبقے میں بھی اطمینان نہیں پایا جاتا۔ قومی معیشت کی بہتری اپنی جگہ ہوگی۔ اعدادوشمار کچھ بھی بولتے ہوں لیکن جو کچھ صارف مارکیٹوں میں نظر آ رہا ہے اور یہی زمینی حقائق ہیں، وہ خوفناک نہیں، پریشان کن ہیں، اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اقتدار کی جانب سے زمینی حقائق سے قطعی برعکس عوام کو غربت میں کمی اور خوشحالی کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو وہ ایسے حکومتی دعووں کو اپنے زخموں پر نمک پاشی سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ترسیلات میں اضافہ خوش آئند ضرور ہے، لیکن ایک ایسی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا جس کی بنیادیں کمزور ہوں۔ وقتی سہولتیں صرف زوال کو مؤخر کرتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے عارضی اقدامات کافی نہیں۔ کرِب پریمیم کو ختم کرنے کے لیے شفاف اور قابلِ اعتماد ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، مارکیٹ پر مبنی شرحِ سود ہونی چاہیے جو ڈالرز رکھنے کی ترغیب دے، اور ایسی سرمایہ اکاؤنٹ پالیسی ہونی چاہیے جو گھبراہٹ کا تاثر نہ دے۔ حکومت کو عوام کا مکمل اعتماد اس وقت ہی حاصل ہوپائے گا جب وہ اپنے روزمرہ کے مسائل بالخصوص مہنگائی کے مسائل میں عملی طور پر ریلیف ملتا ہوا محسوس کریں گے۔ جب حکمران طبقات کی جانب سے عوام پر مہنگائی در مہنگائی کا بوجھ لاد کر اپنی سہولتوں اور مراعات میں بے انتہاء اضافے کے منتخب ایوانوں میں قوانین منظور کرائے جاتے ہیں تو عوام کو اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے حکومتی اعلانات مذاق ہی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گذشتہ روز کے دل خوش کن اعلانات کے ساتھ ہی گذشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں جولائی کے تیسرے ہفتے میں بھی مہنگائی کے جھکڑ چلنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے مطابق رواں ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھر مہنگائی میں ریلیف اور اقتصادی استحکام کے دل خوش کن حکومتی دعووں پر عوام کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ بے شک حکمران اقتصادی ترقی کیلئے اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا کریڈٹ لیں مگر عوام کو بھی ان کے مسائل کے حل کے معاملہ میں ضرور مطمئن کریں۔ اگر عوام بجلی گیس کے ناروا اضافی بلوں کی اذیت سے ہی خود کو باہر نہیں نکال پائیں گے تو ان سے حکومتی گورننس کے لیئے رطب اللسان ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے اور ارباب اختیار بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات 23 سے 26 ارب ڈالر کے درمیان ہوں گی۔جون 2025 میں جاری کھاتے کا سرپلس 328 ملین ڈالر رہا، جو مئی کے 84 ملین ڈالر خسارے سے خاصی بہتری ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال کے بیشتر حصے میں جاری کھاتہ سرپلس میں رہا۔ چار میں سے صرف پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر ) میں 474 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔دوسری سہ ماہی میں 1.492 ارب ڈالر کا سرپلس رہا، تیسری میں 820 ملین ڈالر اور چوتھی میں 262 ملین ڈالر۔ تاہم، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دوسری سہ ماہی کے بعد سرپلس میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔کئی سال کی بلند ترین سطح پر ذخائر اور زبردست جاری کھاتہ سرپلس بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ فارن ایکسچینج کی لیکویڈیٹی کم ہے، اور درآمد کنندگان بروقت ادائیگیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں مالی سال 25 کے دوران معمولی اضافہ ہوا، جو حکومتی کوششوں کے برعکس ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، 25 میں FDI 4.7 فیصد بڑھ کر 2.457 ارب ڈالر رہی۔ جون میں FDI کا حجم 206.6 ملین ڈالر رہا، جو کہ جون 2024 میں 205 ملین ڈالر تھا۔حکومت کی سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششوں کے باوجود اندرونی اور علاقائی حالات سرمایہ کاروں کے لیے سازگار نہیں رہے۔مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جارحیت اور مسلسل مخاصمانہ رویے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو پرخطر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی سیاسی حالات بھی غیر یقینی کا شکار ہیں، جس سے غیر ملکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، اور ایران کے ساتھ تجارت اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان دونوں تنازعات نے پورے خطے کو سرمایہ کاری کے لیے غیر پرکشش بنا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنعتی شعبے میں ملکی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے، جس کی وجہ غیر موزوں معاشی پالیسیاں اور پالیسی سازوں کے ساتھ کاروباری طبقے کے بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔اس سرپلس کی سب سے بڑی وجہ 38.3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر تھیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ تھیں اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر کے لیے بنیادی سہارا بنی رہیں۔ اگرچہ حکومت کو امید ہے کہ اس سال پی آئی اے اور دیگر اثاثوں کی فروخت سے غیر ملکی سرمایہ آئے گا، لیکن قومی ایئر لائن کو ایک مقامی کمپنی کے حاصل کرنے کا امکان ہے لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے جسے ارباب حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ مالی سال 25 میں نجکاری پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران، اسٹیٹ بینک نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ (REER) انڈیکس پر روپیہ 21 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ مئی میں 97.79 پوائنٹس کے مقابلے میں جون 2025 میں REER 1.22 فیصد کم ہو کر 96.61 پوائنٹس پر آ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیاہے کہ حکومت کاروباری اور سرمایہ کار دوست ماحول کو مزید بہتر بنانے کے لیے ترجیحی اقدامات کر رہی ہیلیکن اب تک ایسی کوششیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ ملک میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے صنعتوں میں توسیع انھیں اپ گریڈ کرنے کے کم وبیش تمام منصوبے التوا میں ڈال دیے ہیں اور غالباً دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے اور ہماری برآمدات میں اب تک ہونے والا اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے سوا زیادہ تر غیررسمی اور زرعی شعبے کا مرہون منت رہا ہے ،اور ظاہر ہے کہ موسم جس طرح کروٹ بدل رہاہے ہم زرعی شعبے کی برآمدات پر زیادہ انحصار نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • مسائل بندوق سے نہیں، مذاکرات سے حل ہوتے ہیں، ینگ پارلیمنٹری فورم
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • پاکستان اور برطانیہ کے مابین حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ، وزیراعظم شہبازشریف کی برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سے ملاقات میں گفتگو
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • ’مدد کیلئے آوازیں لگائیں لیکن کسی نے نہ سنا‘: اسلام آباد میں کار کے ساتھ ڈوبنے والے ریٹائر کرنل اور بیٹی کی تلاش تاحال جاری
  • 5 اگست کو مینار پاکستان جلسہ، اب مذاکرات نہیں تحریک چلے گی: بیرسٹر گوہر 
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر
  • ’لارڈز ٹیسٹ میں انگریز اوپنرز 90 سیکنڈ لیٹ آئے‘، بھارتی کپتان نے چالاکی پر سوال اٹھادیا
  • زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد