Daily Ausaf:
2025-07-23@01:20:14 GMT

میڈیا نوعمر خاتون انفلوئنسر کا قتل

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

ہمارے خاندانی معاشرے کی معروف سوچ ہے کہ،’’بیٹیاں گھر میں رحمت لے کر آتی ہیں۔‘‘ لیکن کسے معلوم کہ کل ان کی کوئی معصوم بیٹی کسی نوجوان کی مریضانہ سوچ کی نذر ہو کر قتل ہو جائے گی۔ ہمارے ہاں شادی کے کچھ سالوں بعد اولاد نہ ہو تو لوگ فوراً پریشان ہوتے ہیں، اور جس شادی شدہ جوڑے کو پہلی بیٹی پیدا ہو اسے ’’خوش قسمت‘‘ گردانا جاتا ہے۔ اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ثنا ء یوسف جیسے قتل کے واقعہ کہ بعد کچھ جوڑوں کو اولاد کی تمنا بھی کم ہو گئی ہو گی، چہ جائیکہ والدین گھر میں بیٹی جیسی ’’رحمت‘‘ کے آنے کا انتظار کریں۔ اس ملک میں جہاں ہر قدم پر ہمارے لئے موت کے راستے کھلے ہیں وہاں اولاد پیدا کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ کیا خبر کہ کل ایک اور بیٹی ’’ثناء‘‘ بن جائے۔
لیکن وہ کون والدین ہیں کہ جو کسی کی بیٹیوں کو کھیلتا دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بیٹی کے آنے کا خواب نہ جاگتا ہو کہ کاش میری بھی ایک بیٹی ہوتی۔ آپ آج بھی کسی بیٹی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے ہیں تو آپ کا سر بھی آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے کہ مالک صرف ایک بیٹی عطا فرما دے۔ لیکن اس اندوہناک واقعہ کے بعد کتنے لوگ ہوں گے جن کے دل سے خدا سے بیٹی مانگنے کی تمنا نکل گئی ہو گی کہ بیٹیاں قتل کرنے کے لئے نہیں ہوتی ہیں؟
سوشل میڈیا جہاں علمی، کاروباری اور سماجی روابط کے فروغ کا ذریعہ ہے وہاں ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں قتل ایسے انسانیت سوز جرائم کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے۔ 17سالہ کامیاب ٹک ٹاکر ثنا ء یوسف کا قتل پہلی واردات نہیں جو حسد اور ٹک ٹاکری کی وجہ سے ہوئی ہے اور جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ملک بھر میں اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے۔ تھل کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر اقرا کو گزشتہ ہفتے آٹھویں فیل کزن نے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والی یتیم لڑکی اب پیسے کمانے لگی تھی۔ لاہور کی معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر ایات مریم کو چند ماہ پہلے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دینے والے شوہر سعد نے اس لئے قتل کیا کہ وہ کاروبار کیلئے تیس لاکھ مانگ رہا تھا جو اس نے نہیں دیئے تو بیوی کو گلہ دبا کر قتل کیا اور اس کی گاڑی لے کر بھاگ گیا۔ جب وہ گرفتار ہوا تو اس نے اپنی مقتولہ بیوی پر غیر مردوں سے تعلقات کا الزام لگا دیا۔ جبکہ ملتان کی قندیل بلوچ نے بھائی کو موبائل شاپ بنا کر دی تھی، گھر کے سارے اخراجات اٹھاتی تھی لیکن پانچویں فیل بھائی نے غیرت کا نام لے کر اسے اس لئے قتل کر دیا تھا کہ وہ دوکان میں مزید ’’سامان‘‘ ڈالنے کیلئے اس کو دس لاکھ روپے نہیں دے رہی تھی۔
آئی جی اسلام آباد کی پریس کانفرنس سے وضاحت ہو گئی ہے کہ قاتل 17سالہ نوجوان میڈیا انفلوئنسر ثناء یوسف کی قربت حاصل کرنا چاہتا تھا جس میں ناکامی کے بعد اس نے اسے اس روز قتل کیا جب وہ چند گھڑیاں پہلے اپنی 17ویں سالگرہ کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ 22 سالہ قاتل عمر خود بھی کم فالورز رکھنے والا ٹک ٹاکر تھا۔ اس نے ثناء کو ملنے کی بارہا کوشش کی مگر وہ ہر دفعہ انکار کرتی رہی جس کے بعد عمر کے دل میں حسد اور مریضانہ انتقام پیدا ہوا جس کا نتیجہ اس نوجوان کے ہاتھوں ظالمانہ قتل کی صورت میں نکلا۔
سوشل میڈیا کی ترقی اور جدید موبائل فونز کے بعد جرائم میں اضافے اور اس نوع کی قتل جیسی وارداتوں میں اضافہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اس قسم کے جتنے بھی قاتل ہیں وہ ان پڑھ، جاہل اور ناکام زندگی گزارنے والے ہیں، وہ خود تو زندگی میں کچھ نہیں بن سکے تھے مگر انہوں نے اپنی جان پہچان والی خواتین یا خونی رشتوں والی کامیاب عورتوں کے قریب ہونے کی کوشش کی یا ان سے مالی مدد لینا چاہی مگر جب وہ کامیاب نہیں ہوئے تو انہوں نے قتل جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔ کوئی اپنی ناکام زندگی پر ان خواتین کی کامیابیوں سے حسد کرتا تھا اور کوئی ان کے زریعے امیر ہونا چاہتا تھا۔ایات مریم کے شوہر، قندیل بلوچ کے بھائی اور اقرا کے کزن نے قتل کی وجہ غیرت بتائی۔ ثنا ء کے میٹرک پاس قاتل نے بیان دیا کہ، ’’وہ مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی‘‘ ثناء یوسف کے قاتل عمر حیات عرف کاکا کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ عمر حیات کا کہنا ہے کہ میں ثناء یوسف سے حد سے زیادہ محبت کرتا تھا، لیکن وہ اسے خاطر میں نہیں لاتی تھی، جس کے باعث وہ جنون میں مبتلا ہو کر یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ لیکن قاتل کی ناہموار ذہنی سوچ کے پیچھے ہمارے معاشرے کا اجتماعی نفسیاتی رجحان کارفرما نظر آتا ہے کہ یہ سارے قاتل جھوٹے اور غلیظ ذہنیت رکھنے والے ذہنی مریض ہیں۔ اگر ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج شکایات اور ایف آئی آرز کا تجزیہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں حسد، منافقت اور راتوں رات امیر بننے کی آگ کچھ زیادہ ہی لگی ہوئی ہے۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کریکٹر بلڈنگ کے الگ سے ادارے ہی نہیں ہیں۔ یہ ہمارا ہی ملک و معاشرہ ہے جہاں بیویوں کی چوری چھپے ویڈیو بنانے اور ان کی بنیاد پر سسرال والوں کو بلیک میل کرنے والے بھی موجود ہیں، یہاں دھوکہ سے نشہ اور شربت پلا کر عریاں ویڈیو بنانے والے ہیں، جو محبت کے جال میں پھنسا کر گندی ویڈیوز بناتے ہیں اور پھر ’’بلیک میل‘‘ کرتے ہیں۔ یہاں کسی لڑکی کو ویڈیو کے جال میں پھنسا کر اسے مزید غلیظ کام کرنے پر مجبور کرنے والے سفاک لوگ بھی ہیں۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں بہاولپور یونیورسٹی جیسے شرمناک واقعات پیش آتے ہیں۔
ہمارا ملک سوشل میڈیا کی ترقی کے دوران ایسا خطرناک معاشرہ بنتا رہا ہے جہاں تعلیمی اداروں میں جانے والی نیک اور پرہیز گار لڑکیاں بھی خوف محسوس کرنے لگی ہیں۔ دوسری طرف دینی مدارس میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو زیادتیاں یا ریپ وغیرہ ہوتے ہیں اس کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ ایسی جاہلانہ اور غیرذمہ دارانہ اجتماعی نفسیات ہے جو وقت کے ساتھ جڑ پکڑتی جا رہی یے۔ہمارے ملک میں عورت اور مرد کے رشتہ کو ایک غیرسنجیدہ موضوع بنایا جا رہا ہے حالانکہ اس رشتے نے ازل سے ہے ابد تک قائم رہنا ہے۔ کسی بھی ملک و معاشرے کے قوانین اور معاشرتی بندھن انسانوں نے طویل سفر کے تجربات کے بعد قائم کیئے ہوتے ہیں، اگر ان کو میڈیا کی ترقی اور آزادی کے نام پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو امکان ہے کہ ثناء کے قتل جیسی مزید وارداتیں بھی ہوں گی۔ پاکستانی معاشرہ اس لئے بدترین ہے کہ یہاں مذہب اور سیاست کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ سری لنکن منیجر کو زندہ جلانے جیسے واقعات بھی ہمارے ہی ملک میں پیش آتے ہیں اور ثناء یوسف کے قتل جیسے خوفناک واقعات بھی اسی ملک میں رونما ہوتے ہیں، اس لئے کہ مجرمین کو فوری انصاف کے کٹہرے میں کڑی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ کوئی خاتون عربی زبان کے الفاظ والا لباس پہن لے، بھلے اس پر کچھ بھی لکھا ہوا ہو تو شدت پسند بھرے بازار میں اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے گھیر لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی اس سطحی اور بھیانک نفسیات کو اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ اس نوع کے واقعات میں مجرمان کو فوری اور کڑی سے کڑی سزا دی جائے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہوں۔ ثنا کے قاتل کی فوری گرفتاری پولیس کی قابل تحسین کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انتظامیہ اور پولیس نے تو ثناء کے قاتل کو گرفتار کر لیا اب عدلیہ کی باری ہے کہ وہ قاتل کو کیفر کردار تک پہچا کر لواحقین کو جلد سے جلد اور بروقت انصاف فراہم کریں، اور مجرم کو عبرت کا نشان بنائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کو ممکن بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا ثناء یوسف ہوتے ہیں جاتا ہے ملک میں کے بعد قتل کی

پڑھیں:

اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی سے ملاقات، بھارت میں ہنگامہ مچ گیا

سوشل میڈیا پر پاکستان کے کرکٹ اسٹار شاہد آفریدی اور بھارتی اداکار اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

وائرل تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اجے دیوگن شاہد آفریدی سے گرم جوشی سے ملاقات کر رہے ہیں اور خوش مزاجی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ جس پر بھارتی انتہا پسندوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اجے دیوگن پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ 

یہ تصویر ایسے وقت میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جب لندن میں ورلڈ چیمپیئنز شپ آف لیجنڈز کا میچ پاکستان بھارت کشیدگی کی نذر ہوگیا اور برمنگھم میں دونوں ٹیموں کے درمیان شیڈول میچ منسوخ کر دیا گیا۔

وائرل تصاویر کی حقیقت کیا ہے؟

تاہم ان تصاویر کی حقیقت کچھ اور ہے اور پہلگام واقعے کی پیش نظر اسے صرف بھارتی عوام کو بھڑکانے کیلیے پروپگنڈے کے تحت وائرل کیا گیا ہے۔ دراصل یہ تصویر گزشتہ برس کی ہے جب اجے دیوگن کی شاہد آفریدی سے برمنگھم میں ورلڈ چیمپیئن شپ آف لیجنڈز 2024 کے دوران ملاقات ہوئی تھی۔

جہاں کچھ انتہا پسند بھارتی سوشل میڈیا پر تصویر کو 2025 کا بتا کر بھارتی عوام کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں کچھ بھارتی شہری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تصویر کی حقیقت بھی بیان کر رہے ہیں۔ 

 

TagsShowbiz News Urdu

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد کی نجی سوسائٹی کے برساتی نالے میں بہہ جانے والے باپ بیٹی کی تلاش جاری
  • اجے دیوگن کی اسٹیڈیم میں شاہد آفریدی سے ملاقات، بھارت میں ہنگامہ مچ گیا
  • دو منٹ کے لیے مردہ رہی مگر واپس آنا نہیں چاہتی تھی‘، یونانی خاتون کا حیرت انگیز دعویٰ
  • سوسائٹی کی سڑک سے بہہ کر دیا میں پہنچ گئے، ہم مھفوظ کہاں ہیں؟
  • نیپوکڈز کی دائی جان! کرن جوہر سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں
  • مرد اور خاتون کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے، بلوچستان اسمبلی میں قراداد منظور
  • سانحہ بلوچستان: قاتلوں کو تاویل کی رعایت نہ دیں
  • اسرائیل کی خاطر ایکبار پھر امریکہ یونسکو سے دستبردار
  • اسلام آباد : کارسوارباپ بیٹی برساتی ریلے میں بہہ گئے
  • علیزے شاہ کا تہلکہ خیز انکشاف: "میرا گرنا ایک حادثہ نہیں تھا، مجھے جان بوجھ کر دھکا دیا گیا"