Daily Ausaf:
2025-11-03@14:56:25 GMT

چینی اقتصادی پیش رفت کے خلاف ایٹمی جنگ کا بیانیہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

بات عام فہم اور کتابی سی ہے کہ جسے جانتے تو سب ہیں لیکن اب اس کا تذکرہ کر کے ہائی لائٹ کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ آپ نے حالیہ پاک ،بھارت چپقلش میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پہ ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کی بازگشت ضرور سنی ہو گی اور اس بیانیے کو ایک مخصوص عالمی ایجنڈے کے تحت ہر سطح پہ پھیلایا گیا اور دونوں ایٹمی ممالک کے سوشل، الیکٹرانک،پرنٹ میڈیا پہ ایک ہیجان انگیز صورتحال پیدا کر دی گی کہ اگر دونوں ممالک میں سے کسی کی سالمیت کو خطرہ محسوس ہوا تو ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں روزانہ کی سطح پہ آپ کو مختلف ارسطو اپنی آراء پیش کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ جو اس جنگ زدہ ماحول کی جلتی ہوئی آگ پہ مزید تیل ڈال کر اپنی حکمت کا اظہار کرتے ہیں ۔
درحقیقت اس وقت براعظم امریکہ و یورپ میں تو ایسی جنگی صورتحال اور ہجان انگیزی نہیں ہے اور عوام اس ہیجان انگیزی سے لاتعلق ہیں جبکہ عالمی سطح پہ تمام جنگیں مشرق وسطی اور براعظم ایشیاء پہ تھونپی جا رہی ہیں ۔اس وقت ایشیاء میں4 ایسے ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں کہ جن میں چین ، روس ، پاکستان اور بھارت شامل ہیں اور چین کی اقتصادی ترقی و پیش رفت نے امریکہ ، یورپ وغیرہ کو برے طریقے سے چیلنج کر رکھا ہے، اور اس صورتحال میں دو ایسے ایشیائی ممالک پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ میں دھکیلنے کی سازش کی جا رہی ہے کہ جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں تاکہ اس پورے خطے کا امن تہہ و بالا کر کے عالمی طاقتوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاسکے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی ، دہشت گردی اور مذہبی منافرت جیسے ایشوز کو نقطہ بنا کر کے ان دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ کا پہلا رائونڈ مکمل کیا جا چکا ہے کہ جس میں فضائی اور راکٹ حملے وغیرہ کروا کر بنیاد رکھی دی گی ہے ۔ جنگ شروع بھی امریکہ کرواتا ہے اور پھر مخصوص مدت کے لئے جنگ کو رکواتا بھی امریکہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دو ایٹمی ممالک ایک دوسرے پہ ایٹمی ہتھیاروں سے وار کا عندیہ بھی ایسے سناتے ہیں کہ جیسے چنے بانٹ رہے ہوں جبکہ عالمی طاقت کے زیر اثر اس ساری ایکسرسائز کا مقصد براعظم ایشیاء میں بدامنی پیدا کر کے اس کی تعمیر و ترقی کو روکنا ، عوام کی بدحالی اور خطے کو اندھیروں میں دھکیلنا ہے کہ جس کی بناء پہ براعظم ایشیاء کی ابھرتی ہوئی اکانومی کو ہر صورت روکنا ہے ۔یہ ایک بڑا گیم پلان ہے کہ جسے پاکستان اور بھارت کی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اور بھارت کسی بھی ایسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ جو ایک عالمی سازش کی تکمیل کے لئے لڑی جائے اور جس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کا پورا علاقہ تباہ و برباد ہو جائے اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ میڈیا پہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کا بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے، اور دونوں ممالک کی قیادت اس وقت ہوشمندی کا ثبوت نہیں دے رہی اور الٹے سیدھے بیانات دے کر معاملات کو مزید الجھا رہی ہے اور دونوں ممالک کے عوام کو ایک ایسے جنگی بخار میں مبتلا کر رہی ہے کہ جس کا فائدہ ان ممالک کے عوام کو نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کو ملنا ہے ۔
پاکستان ، بھارت کے درمیان محدود جنگ کے پہلے رائونڈ کو تو اسی طاقت نے رکوا دیا ہے کہ جس طاقت نے یہ جنگ شروع کروائی تھی لیکن یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اب جنگ کا دوسرا رائونڈ انتہائی جان لیوا ثابت ہو گا ، کیونکہ اس دوسرے رائونڈ کے لئے دونوں ممالک کی جانب سے بیانات ہی اس طرح کے دیئے جا رہے ہیں کہ اب کی بار وہ ایک دوسرے کو نیست و نابود کر دیں گے، اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی کر گزریں گے ۔ دونوں ممالک کے عوام کا وسیع تر مفاد اور حکمت اسی میں ہے کہ ان بے سروپا جنگوں سے بچ کر وسائل کو ملکی تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی پہ صرف کیا جائے، اور ایٹمی جنگ کی دھمکی بیانیہ کی حد تک تو بھلی محسوس ہوتی ہے لیکن اس کے مضمرات کا اندازہ کرنا بھی شائدناممکن ہے ۔
سنجیدہ اور محب وطن قیادتیں عوامی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہیں اور جنگ سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ جنگ شروع کرنا ایک پاگل پن تو ہو سکتا ہے کہ جس کے لئے کسی خاص تردد کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اصل دلیری اور حکمت ایسی کسی جنگ سے بچنا ہے کہ جس سے حاصل وصول دونوں ممالک کو کچھ بھی نہیں ہونا ماسوائے تباہی کے ، آج کل قوموں کی ترقی کا راز معیشت کی ترقی میں ہے نا کہ جنگوں میں،دونوںہمسایہ ممالک کی قیادت کا یہ امتحان ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی پراکسی وار سے اپنے خطے اور عوام کو بچائیں اور قوموں کو جنگی بخار کے پاگل پن زدہ ماحول سے نجات دلا کر عوامی مفاد اورمعیشت کی ترقی کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایٹمی ہتھیاروں سے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے درمیان ممالک کی ممالک کے ہے کہ جس کیا جا جنگ کا ہیں کہ ہے اور کے لئے

پڑھیں:

غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-2

 

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سفارتی روابط اور علاقائی مفاہمت کے لیے پرعزم ہے، امیر خان متقی
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط