را کی کٹھ پتلی فتنۃ الہندوستان کا بلوچوں سے تعلق نہیں، یہ خالصتاً دہشتگرد ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
کوئٹہ:
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ فتنۃ الہندوستان کی سرپرست را ہے اور ان کا بلوچوں یا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں، یہ خالصتاً دہشتگرد ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقی ظہور احمد بلیدی اور چیف سیکرٹری بلوچستان کے ساتھ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حمایت یافتہ گروہ ’’فتنۃ الہندوستان‘‘ پاکستان خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کو برداشت نہیں کر پا رہا اور پراکسی وار کے ذریعے ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے ناپاک عزائم رکھتا ہے۔ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ہے، ان کا شیطانی کھیل بے نقاب ہو چکا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران بھارتی میڈیا کی گمراہ کن رپورٹس بھی دکھائی گئیں، جن میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران کراچی پورٹ سے متعلق جھوٹی خبریں شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فتنۃ الہندوستان کے کارندے شنبے اور رحمان گل کی آڈیوز بھی میڈیا کو سنوائی گئیں، جن میں را کے ہینڈلرز سے معلومات کے تبادلے کی تفصیلات شامل تھیں۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ خضدار میں معصوم بچوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد دراصل فتنۃ الہندوستان کے ایما پر کام کر رہے ہیں، جنہیں را فنڈنگ اور ہدایات فراہم کرتی ہے۔ یہ دہشت گرد بلوچوں کے نمائندے نہیں، یہ محض را کے آلہ کار ہیں۔
انہوں نے واضح کہا کہ بلوچ قوم کی اپنی روایات ہیں اور وہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ کسی پنجابی کو نہیں، پاکستانیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ریاست کے پاس فتنۃ الہندوستان کے خلاف مزید شواہد موجود ہیں۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ریاست کے خلاف لاپتا افراد کا بیانیہ دراصل ایک پروپیگنڈا ہے۔ جبری گمشدگیوں سے زیادہ ازخود گمشدگیوں کی تعداد ہے، اور ان کی فہرستیں بی ایل اے کے پاس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں کسی بڑے ملٹری آپریشن کی ضرورت نہیں اور ریاستی پالیسی سیاسی مذاکرات اور مؤثر حکمت عملی پر مبنی ہے۔ سیاسی ڈائیلاگ ہر وقت ہوتے ہیں، مگر جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے، ان کے خلاف کارروائی ضرور ہوگی۔
میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ریاست فتنۃ الہندوستان کے ہر حملے کو ناکام بنائے گی اور پاکستان کے امن و ترقی کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فتنۃ الہندوستان کے کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین