سزا سے پہلے سولی: میڈیا ٹرائل اور انصاف کا قتل
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) جیوتی ملہوترا کی پرانی ویڈیوز کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جا رہا ہے، ان کی ذاتی ڈائری کے اقتباسات کو سوشل میڈیا پر اچھالا جا رہا ہے، اور ان کی ذاتی زندگی پر یوں تبصرے کیے جا رہے ہیں گویا عدالت نے مجرم قرار دے دیا ہو۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سفارتکار دانش سے خفیہ شادی کی تھی اور وہ بھی سفارتخانے کے اندر یہاں تک کہ بعض چینلز نے بچوں کی کہانیاں بھی تراش لیں۔
صحافت کا دعویٰ رکھنے والے ادارے ایک خاتون کی نجی زندگی پر یلغار کیے ہوئے ہیں، جبکہ عدالت میں مقدمہ ابھی زیرِ سماعت بھی نہیں آیا۔اس سارے کھیل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر کل عدالت جیوتی ملہوترا کو بری کر دیتی ہے تو میڈیا نہ اپنی غلطی تسلیم کرے گا، نہ معذرت کرے گا، اور نہ ہی اس طر ح ان کی عزتِ رفتہ واپس آ سکے گی۔
(جاری ہے)
انٹرنیٹ پر ان کا نام تلاش کریں تو الزامات، طعنوں، سنسنی اور غداری کے عنوانات کی بھرمار ہے۔
حقیقت کیا ہے، یہ کسی کو جاننے کی پروا نہیں۔دورِ حاضر کی صحافت میں، جہاں ریٹنگ اور سنسنی کی دوڑ نے اخلاقیات کو روند ڈالا ہے، میڈیا ٹرائل ایک ایسا تماشا بن چکا ہے جو انصاف کے عمل کو پامال کر کے انسانی ساکھ کو تہس نہس کر دیتا ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یاد کریں اداکارہ ریا چکرورتی کا معاملہ، جب سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد میڈیا نے اسے قاتل کے طور پر پیش کیا۔
ہفتوں تک پرائم ٹائم پر اس کے خلاف کہانیاں نشر ہوتی رہیں۔ معاملہ سی بی آئی تک پہنچا، لیکن پانچ سال بعد کیس بند کر کے ریا کو کلین چٹ دے دی گئی۔ مگر جس میڈیا نے اس پر انگلیاں اٹھائیں، اس نے معذرت کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔معروف صحافی افتخار گیلانی کی کہانی بھی کچھ کم کربناک نہیں۔ 2002 میں ان پر پاکستان سے روابط کے الزام میں مقدمہ چلا، اور وہ نو ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں قید رہے۔
بعد میں تمام الزامات خارج کر دیے گئے۔ اپنی کتاب "مائی ڈیز ان پریزن" میں وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح میڈیا نے انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ بنا کر پیش کیا، اور بغیر کسی تحقیق کے ان پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا۔ ایک انگریزی روزنامے نے تو یہ بھی لکھا کہ گیلانی نے "اعتراف" کر لیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت تک ان سے کسی ایجنسی نے پوچھ گچھ تک نہیں کی تھی۔گیلانی کہتے ہیں کہ وہ تو جیل میں تھے، مگر میڈیا کے اس رویہ کی وجہ سے ان کی فیملی کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کی چار سالہ بیٹی اور دو سال کا بیٹا جب جنوبی دہلی کی ایک رہائشی سوسائٹی میں باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے جاتے تھے، تو پڑوسی اپنے بچوں کو اندر بلاتے تھے۔ معصوم بچوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کل تک جن بچوں کے ساتھ وہ ہر شام کھیلتے تھے، وہ آخر کیوں ان سے کتراتے ہیں۔
ان کی اہلیہ کو دیکھ کر پاس پڑوس کی خواتین منہ پھیر دیتی تھیں۔ اس میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں تھا، بلکہ میڈیا نے ہی ایسی بہتان آمیز کہانیاں ان تک پہنچائی تھیں، کہ وہ خوف زدہ ہوگئے تھے۔میڈیا، جیسے خبر کا بھوکا بھیڑیا ہوتا جا رہا ہے، ہر مبینہ ملزم کو اشتہاری بنانے پر تلا رہتا ہے۔ ممبئی کے اسکول ٹیچر عبد الواحد شیخ، جنہیں 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے بعد گرفتار کیا گیا، نو سال تک قید رہے۔
بالآخر وہ بری ہو گئے، مگر ان نو برسوں میں میڈیا ان کی کردار کشی کا بازار گرم کیے رہا۔ وحید کے مطابق، جب عدالت میں پولیس پر تشدد کی شکایت کی گئی، تو میڈیا نے الٹا پولیس کی صفائی پیش کی کہ ملزمان کی شکایات القاعدہ کے طریقہ کار کا حصہ ہیں۔یہی عبد الواحد شیخ بعد ازاں 2022 میں دوبارہ گرفتار کیے گئے، اس بار پی ایف آئی سے تعلق کے الزام میں۔
ایک بار پھر میڈیا نے الزامات کو حقیقت کے طور پر پیش کیا، اور ان کے "اعترافات" کا دعویٰ کیا، جن کا انہوں نے کبھی اقرار نہیں کیا۔شیخ نے بعد از رہائی اپنی روداد "بے گناہ قیدی" کے عنوان سے لکھی، جو اردو کے ساتھ ہندی، انگریزی اور مراٹھی میں بھی شائع ہوئی۔ ان کا تجربہ اور افتخار گیلانی کی داستان ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ میڈیا ٹرائل صرف خبروں کی دنیا کا کھیل نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔
یہ وہ کرب ہے جو فرد کی زندگی کو تاعمر بھگتنے پر مجبور کرتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ ملہوترا بے گناہ ہے یا مجرم — یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو میڈیا کے ذریعے جرم کی علامت بنا دینا، اس کی نجی زندگی پر عوامی یلغار، اس کے مستقبل کو داغدار کر دینا، کیا یہ خود ایک جرم نہیں؟ کیا میڈیا اپنے آئینی و اخلاقی کردار سے منحرف ہو کر انصاف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تو نہیں بن گیا؟
جب میڈیا خود کو تفتیشی ایجنسی، جج اور جلاد سمجھنے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ صحافت کے سنہری اصول قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں۔
تب ہی تو کسی کے بے گناہ ہونے کی سند بھی اس کے داغدار ماضی کو صاف نہیں کر پاتی۔ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں "خبر" انسان سے زیادہ قیمتی ہو چکی ہے۔ ایک لمحے کی سرخی اگلے لمحے کا ناسور بن جاتی ہے۔ میڈیا ٹرائل، اس پورے منظرنامے میں، انصاف کے عمل پر سب سے بڑی ضرب ہے — ایک ایسی ضرب جو صرف قانون کو نہیں، ایک انسان کی زندگی، اس کی ساکھ اور اس کے مستقبل کو بھی پامال کر دیتی ہے۔ اور یہ سب، اس سے پہلے کہ عدالت کوئی فیصلہ دے — یا شاید کبھی دے بھی نہ سکے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میڈیا ٹرائل جا رہا ہے میڈیا نے پیش کیا پیش کی
پڑھیں:
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کیخلاف ایک اور نظرِ ثانی درخواست دائر
— فائل فوٹوسپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف ایک اور نظرِ ثانی درخواست دائر کر دی گئی۔
شہری جنید رزاق کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے نظر ثانی درخواست دائر کی، جس میں 7 مئی 2025ء کے آئینی بینچ کے فیصلے کو نظرِ ثانی کرکے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ 7 مئی 2025 کا اکثریتی فیصلہ آئین کے فراہم کردہ بنیادی انسانی حقوق کے برخلاف ہے۔ اکثریتی فیصلے میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دی گئی ہے۔
درخواست کے مطابق سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کے آرٹیکل 10 اے کے برخلاف ہے، آئینی بینچ نے ماضی کے عدالتی فیصلوں پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
دائر درخواست میں کہا گیا کہ فیصلے میں ہے کہ فریقین نے اٹارنی جنرل کے بیان کردہ 9 مئی کے واقعات کی تردید نہیں کی، حالانکہ ملزمان کا 9 مئی کو اس قسم کے واقعات میں ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہر ملزم کے کیس کا فیصلہ ایک آزاد عدالت نے شواہد کی بنیاد پر کرنا ہے، فیصلے میں 9 مئی کے واقعات سے متعلق پیراگراف کو حذف کیا جائے۔