چاند کے تاریک حصے میں خلائی مخلوق کی موجودگی؟ دلچسپ انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
جہاں امریکا چاند پر دوبارہ انسان کو بھیجنے کی تیاریاں کر رہا ہے وہیں سی آئی اے کی 25 برس سے زیادہ عرصہ پرانی ایک فائل دوبارہ سامنے آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چاند پر زندگی دریافت کر لی گئی ہے۔
1970 اور 80 کی دہائی میں سی آئی اے نے ایسے افراد کے ساتھ تجربات کیے تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ فاصلہ پر موجود اشیاء، وقوعے یا لوگوں کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں جس کو ’ریموٹ ویوئنگ‘ کا عمل کہا جاتا ہے۔
یہ عمل کرنے والے ایک شخص اِنگو سوان نے اس متعلق 1998 میں پہلی بار انکشاف کیا جب انہوں نے اس عمل کے ذریعے چاند کے تاریک حصے میں جانے کے متعلق تفصیلات بیان کیں۔ واضح رہے چاند کا یہ حصہ کبھی بھی زمین کے سامنے نہیں آتا اور انسانی آنکھ سے پوشیدہ رہتا ہے۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں مشاہدہ کرنے والوں نے ٹاور، عمارتوں اور انسانوں جیسے خلائی مخلوق دیکھے، جو چاند کی سطح پر ایک خفیہ کمپلیکس پر کام کر رہے تھے۔
اِنگو سوان کا کہنا تھا کہ حکومتی اہلکار یہ جانتے تھے کہ وہاں خلائی مخلوق کی بیس ہے اور جب اِنہوں ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے 2 لاکھ 38 ہزار میل دور یہ منظر دیکھا تو وہ خلائی مخلوق ان کی موجودگی کو محسوس کرسکتے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بالکل ہماری طرح دِکھنے والے خلائی مخلوق نے چاند پر بڑے بڑے متعدد ٹاور تعمیر کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا سائز نیو یارک میں قائم اقوامِ متحدہ کی عمارت جتنا تھا۔
2013 میں انتقال کرجانے والے اِنگو سوان 1998 میں ایک کتاب 'Penetration: The Question of Extraterrestrial and Human Telepathy' لکھی جس میں انہوں نے ہوش اڑا دینے والے انکشافات کیے۔
اِنگو کے ان تمام دعووں کے باوجود امریکا، روس، چین، جاپان اور بھارت کے لونر مشنز چاند پر خلائی مخلوق کی بیسز یا زندگی کو ٹھوس ثبوت حاصل نہیں کر سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خلائی مخلوق چاند پر
پڑھیں:
امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی
ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب
ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟
ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر