Express News:
2025-07-23@21:45:34 GMT

ریڈ لائن سے شہ رگ تک

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے گزشتہ ہفتے ملک کی مختلف جامعات کے وائس چانسلرز، پرنسپلز اور سینئر اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ پانی ہماری ریڈ لائن ہے اور 24 کروڑ پاکستانیوں کے بنیادی حقوق پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ انھوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ کشمیر کبھی نہیں چھوڑیں گے، کشمیر کا کوئی بھی سودا ممکن نہیں ہے۔ بھارت جان لے کہ کشمیر کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔

فیلڈ مارشل نے بجا طور پر یہ کہا کہ ہندوستان نے کئی دہائیوں سے کشمیر کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا اور اب یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں رہا۔ دہشت گردی اور اقلیتوں کے خلاف بھارت کے جارحانہ اقدام کو عالمی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی انڈیا کا اندرونی مسئلہ ہے جس کی بنیادی وجہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر بڑھتا ہوا ظلم و تعصب پسندی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آج بھی ایک بڑی تعداد لگ بھگ 20 کروڑ سے زائد رہائش پذیر ہے۔ جو ہندو توا کے پرستار اور متعصب بھارتی وزیر اعظم اور ان کے ہم خیالوں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں۔

انڈیا میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتیں سکھ اور عیسائی بھی انتہا پسند مودی حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ گجرات اور آسام میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے خون آشام واقعات کو کون بھول سکتا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی دکانوں و مکانوں کو آگ لگا کر ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیا جاتا ہے۔ بھارت میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت گزشتہ سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور بربریت و سفاکی کی جو خون آلود داستان رقم کر رہی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انڈیا کی 7 لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے۔ اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے ایک لاکھ کے لگ بھگ کشمیری نوجوان، بزرگ، مائیں، بہنیں اور بچے اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں لیکن بھارت کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق انھیں حق خود ارادیت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔

قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اسی لیے پاکستان اول دن سے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان ہر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر کا مقدمہ پوری شد و مد کے ساتھ پیش کرتا ہے لیکن بدقسمتی یہ کہ یہ تنازعہ آج تک حل نہ ہو سکا۔ گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکریٹری سے لے کر وزرائے اعظم تک کی سطح کے درجنوں مذاکرات ہو چکے ہیں۔ کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا جس کی بنیادی وجہ بھارتی رہنماؤں کی غیر سنجیدگی و ہٹ دھرمی اور تنازع کشمیر کے حل سے دانستہ فرارکی کوشش ہے، لیکن پاکستان واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کشمیر کو کبھی نہیں بھول سکتا۔

حالیہ پاک بھارت جنگ نے کشمیر کے تنازع کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کردیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حل کے لیے اپنی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ افسوس کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اس پر کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر فتنۃ الہندوستان ہیں ان کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچ قبیلے تو اپنے ہی مسائل میں گرفتار ہیں۔ وہ محب وطن اور قوم پرست ہیں۔ حکومت ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ مرکوز کرے تو جلد ہی بلوچستان میں منفی رجحانات کا خاتمہ ہو جائے گا۔

بھارت معصوم بلوچ نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جو سازش اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے کر رہا ہے، اس کا قلع قمع کرنا ازبس ضروری ہے۔ اس ضمن میں افغانستان سے یہ اچھی خبر آئی ہے کہ طالبان کمانڈر سعید اللہ سعید نے فتنۃ الخوارج کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ امیر کے حکم کے خلاف کسی بھی ملک بالخصوص پاکستان میں جا کر لڑنا جائز نہیں۔ اس عمل کو فساد تصور کیا جائے گا۔ طالبان کمانڈر کا حکم بھارت کے لیے جھٹکا ہے اب وہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین پہلے کی طرح استعمال نہیں کر سکے گا۔ افغانستان کا یہ اقدام خطے کے امن و استحکام کے لیے اہم ترین ہے۔

بھارت نے پہلگام واقعے کو جواز بنا کر سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ معطل کرکے جو آبی جارحیت کی ہے اسے پوری دنیا میں منفی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ غیر ملکی دورے میں ایران، ترکیہ، آذربائیجان میں پوری شد و مد کے ساتھ پانی کے مسئلے کو اٹھاتے ہوئے بھارتی جارحیت کا پردہ چاک کیا ہے۔

بھارت کسی صورت پاکستان کا پانی سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرکے نہیں روک سکتا، یہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دنیا پاکستان کے موقف کی حامی ہے۔ بھارت کو ہر صورت معاہدے کو بحال کرنا ہوگا۔ پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔ بھارت کو ہماری ریڈ لائن (پانی) اور شہ رگ (مقبوضہ کشمیر) پر ایک دن ہر صورت سرینڈر کرنا ہوگا۔ ورنہ بقول جنرل ساحر شمشاد اگلی پاک بھارت جنگ زیادہ وسیع ہوگی پھر بین الاقوامی ثالثی بھی مشکل ہو جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریڈ لائن کشمیر کو کے خلاف دیا ہے کے لیے

پڑھیں:

بھارت میں خود ساختہ ریاست کا جعلی سفارتخانہ بے نقاب، ملزم گرفتار

بھارتی ریاست اترپردیش کے شہرغازی آباد میں ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے، اسپیشل ٹاسک فورس نے ایک جعلی سفارتخانہ پکڑا ہے۔ اس جعلی سفارتخانے میں مہنگی سفارتی نمبر پلیٹس والی گاڑیاں کھڑی تھیں، جعلی سفارتی پاسپورٹس اور دفتر میں وزارت خارجہ کی جعلی مہریں موجود تھیں۔ پولیس نے ہرش وردھن جین نامی شخص کو گرفتار کیا ہے جو اس دھوکہ دہی کا مرکزی کردار بتایا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ہرش وردھن جین نے ایک پرتعیش 2 منزلہ عمارت کرائے پر لے کر اسے ‘ویسٹارکٹکا’ کے سفارتخانے کے طور پر پیش کیا تھا۔ ویسٹارکٹکا ایک مائیکرونیشن (خودساختہ ریاست) ہے جسے کسی بھی خودمختار ملک کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا، اسے 2001 میں امریکی بحریہ کے افسر ٹریوس میک ہینری نے قائم کیا تھا۔

جین خود کو ویسٹارکٹکا کا ‘بارون’ ظاہر کرتا تھا اور مہنگی گاڑیوں میں سفارتی نمبر پلیٹس لگا کر گھومتا تھا۔ وہ جعلی تصاویر میں خود کو صدر، وزیر اعظم اور دیگر معزز شخصیات کے ساتھ دکھاتا تھا تاکہ بااثر حلقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھا سکے۔ اس کے خلاف 2011 میں بھی ایک مقدمہ درج ہوا تھا، جب وہ غیر قانونی سیٹلائٹ فون رکھنے کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔

ایس ٹی ایف نے کارروائی کے دوران 4 مہنگی گاڑیاں، 12 مائیکرونیشنز کے جعلی سفارتی پاسپورٹس، وزارت خارجہ کی جعلی مہریں، 34 ممالک کی جعلی مہریں، 44 لاکھ روپے نقد، غیر ملکی کرنسی اور 18 سفارتی نمبر پلیٹس برآمد کی ہیں۔

ایس ایس پی سشیل گھولے کے مطابق ہرش وردھن خود کو مختلف مائیکرونیشنز کا سفیر ظاہر کر کے نیٹ ورکنگ کرتا تھا۔ وہ بیرون ملک ملازمتوں کا جھانسہ دے کر لوگوں سے پیسے بٹورتا تھا اور شیل کمپنیوں کے ذریعے حوالہ ہنڈی کا کاروبار بھی چلا رہا تھا۔ پولیس نے اس کے خلاف جعلسازی اور جعلی دستاویزات رکھنے کے الزامات میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔

ویسٹارکٹکا کیا ہے؟

ویسٹارکٹکا 2001 میں امریکی بحریہ کے افسر ٹریوس میک ہینری نے قائم کی تھی۔ یہ انٹارکٹکا کے ایک حصے پر دعویٰ کرتی ہے جو 6 لاکھ 20 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ انٹارکٹک معاہدے کے تحت اگرچہ ممالک دعویٰ نہیں کرسکتے، لیکن افراد پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ویسٹارکٹکا کے 2 ہزار 356 شہری ہیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی وہاں نہیں رہتا۔ یہ ادارہ جنوبی کیلیفورنیا میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر کام کرتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی اور انٹارکٹکا سے متعلق شعور اجاگر کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسپیشل ٹاسک فورس کی کارروائی سے کچھ دن قبل ویسٹارکٹکا کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر نئی دہلی میں اپنے ‘قونصل جنرل’ کی تصاویر شیئر کی گئی تھیں، جس میں ہرش وردھن جین کو قونصل جنرل بتایا گیا تھا۔ کیپشن کے مطابق یہ دفتر 2017 سے کام کررہا تھا، اس دفتر میں ہر سال 5 بار مقامی لوگوں کو کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔

دنیا بھر میں ویسٹارکٹکا جیسے متعدد مائیکرونیشنز موجود ہیں جو خود کو خودمختار ریاستیں قرار دیتی ہیں لیکن انہیں کسی بھی ملک کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے
  • بھارت میں خود ساختہ ریاست کا جعلی سفارتخانہ بے نقاب، ملزم گرفتار
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • ٹی ٹی پی کے نمبرز اور گروپس بلاک کیے جائیں، وزیر مملکت کا واٹس ایپ سے مطالبہ
  • اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت، کشمیر پر قبضے اور آبی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا
  • اسحاق ڈار کی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات طے، اہم امور پر بات چیت کا امکان
  • دیامر‘ بوسرٹاپ جاں بحق ‘ 15سیاھ لاپتہ ؛ بھارت نے پانی چھوڑدیا ‘ آزاد کشمیر کے کئی علاقے زیرآب 
  • پانی 24 کروڑ پاکستانیوں کی لائف لائن ہے، تنازعات کا پرامن حل پائیدار عالمی امن کی ضمانت ہے: اسحاق ڈار
  • پاکستان کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور
  • راہل گاندھی مسلمانوں کے "منظم استحصال" پر پارلیمنٹ میں بات کریں، محبوبہ مفتی