پی ٹی آئی طاقت کھو چکی، اب کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)ن لیگی سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی طاقت کھو چکی ہے اور اب کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں۔
نجی ٹی وی سما کے مطابق اپنے حالیہ بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اپنی مشکلات کے انبار میں مزید اضافے کے سوا کچھ نہیں ملے گا جبکہ بانی پی ٹی آئی سے جیل میں نہ کوئی ملاقات ہوئی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پیشکش کی گئی ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق بانی پی ٹی آئی سے جیل میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمائندے کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر پی ٹی آئی کے پاس سڑکوں پر لانے کے لیے عوام ہیں تو ماہرنگ بلوچ نامی خاتون کے کندھوں کا سہارا کیوں لیا جا رہا ہے؟۔
ان کا کہنا تھا کہ مایوسی کے عالم میں پی ٹی آئی بی ایل اے سے بھی گٹھ جوڑ کر سکتی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ اب کسی قسم کا سیاسی اتحاد بنانا پی ٹی آئی کے بس کی بات نہیں رہی۔
ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں سے 200 گنا زیادہ طاقتور، چین کا 12 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والا جوہری میزائل، امریکہ کے کسی بھی حصے کو نشانہ بناسکتا ہے
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
تشویش ناک، المناک ، خطرناک
تازہ ترین بریکنگ نیوز یہ ہے کہ تحریک ’’عینکووان‘‘ نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کااعلان کر دیا ہے اورٹکٹوں کے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی ہیں چونکہ ٹکٹوں کی تعداد محدود اور امیدواروںکا شماربے پناہ ہے،لہٰذا ’’پہلے آئیے پہلے پائیے‘‘ کی بنیادوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کی جائے گی البتہ بعض خصوصی لوگ ٹکٹ پانے کے لیے خصوصی چندہ دے کر بھی کوشش کرسکتے ہیں۔
تحریک ’’عینکووان‘‘ دراصل تمام عینک پہننے والوں کی نمایندہ تحریک ہے، انسانوں کے علاوہ اس میں ’’عینک والے جن‘‘ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں، ٹکٹ حاصل کرنے والوں کی کامیابی یقینی ہے بلکہ اس تحریک سے متعلق عینک والے ٹو بلکہ تھری اورفوران بھی ہوتے ہیں مثلاً جن کی قریب کی بینائی کمزورہے وہ تو صرف دوعینک رکھتے ہیں، ایک لگانے کے لیے ، دوسری پہلی والی کو ڈھونڈنے کے لیے ، ایسے ہی دور کی بینائی والے بھی دودو عینکس رکھتے ہیں اورجن کی دور ونزدیک کی دونوں بینائیاں سرکھاچکی ہیں وہ چار چار عینکس رکھنے پر مجبورہوتے ہیں، ایک دورکے لیے ایک قریب کے لیے اورایک دھوپ کے لیے اورچوتھی ان سب کو ڈھونڈنے کے لیے ۔
اس حساب سے دیکھاجائے تو تحریک عینکووان کے ووٹروں کی تعداد باقی ساری پارٹیوں اورتحریکوں سے چار گنا بڑھ جاتی ہے، اس ٹکٹ کے امیدواروں کو ہلہ بول دینا چاہیے ، پھر نہ کہنا خبر نہیں ہوئی…ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں ۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
سنا ہے تحریک عینک وان کے دیکھا دیکھی کچھ اورتنظیموں، تحریکوں اورجماعتوں نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کے ارادے باندھ لیے ہیں مثلاً تحریک پیراںومریدان، تحریک عاملاں وکاملاں، تحریک ضمیرفروشاں وایمان فروشاں، تحریک اصول فروشاں ونظریہ فروشاں۔
اس رجحان سے اورکچھ ہو نہ ہو کم سے کم یہ فائدہ تو ضرورہوگا کہ ٹکٹ سستے ہوجائیں گے جو بعض پارٹیوں نے انتہائی مہنگے کیے ہوئے ہیں، سنا ہے، بولیاں بھی لگ جاتی ہیں ۔
ہمیں آپ کے غبی ذہن پر پورا پورا بھروسہ ہے کہ آپ یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ پارٹیاں ٹکٹ کے نام پر کیا بیچتی ہیں ، بکرے کو کبھی یہ پتہ نہیں لگتا ہے اس کا مالک قصائی کو کیا بیچتا ہے حالانکہ پڑوسی ملک کی ایک دانیہ دانشورہ لتامنگیشکر کا فرمودہ ہے کہ
کہو جی تم کیاکیا خریدو گے
یہاں ہر چیز بکتی ہے
لیکن اس بازار میں خریدوفروخت کاجو طریقہ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کوئڈ نائینٹین نے نکالا ہے وہ چندے کے دھندے سے بھی زیادہ آسان اور نفع بخش ہے اوراب تو اس نے اپنے اس دھندے کو ڈویلپ کرکے خاندانی بنا لیا کہ جب بھی کوئی الیکشن ہوتا ہے چاہے بلدیاتی ہو ، صوبہ جاتی ہو یا قومیاتی ، اپنے خاندان کے لوگوں کو اس میں کھڑا کردیتے ہیں ، بہت زورشورسے پبلسٹی کرتے ہیں اورپھر کسی کے حق میں ’’بیٹھ‘‘ جاتے ہیں، لیکن ایسے ویسے نہیں بیٹھتے بلکہ قائد اعظم کے احترام میں بیٹھ جاتے ہیں ۔
یہ منافع بخش دھندہ اس نے اس وقت سے شروع کیاہوا ہے جب سے بیٹوں کے لیے چارپانچ پرائیویٹ اسکول کھلوا کر وہ ماہرتعلیم کے طورپر ریٹائرہوگیا ، اس کے ماہرتعلیم ہونے کی کہانی تو ہم بہت پہلے آپ کو سنا چکے ہیں، ہوا یوں کہ جب ہمارے گاؤں میں محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہونے والے چپڑاسی نے پرائیویٹ اسکول کھولا تو شریر بچوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس نے چشم گل چشم کو رکھ لیا حالانکہ اس کی پوری تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بجے تک تھی ، صبح آٹھ بجے باپ نے اسے اسکول میں داخل کیا اورگیارہ بجے پرائمری اسکول کے استاد نے چار لڑکوں کی مدد سے گھر پہنچوایا ، اب پرائیویٹ اسکول والے نے اسے رکھ تو لیا لیکن اس کے عہدے کا کوئی نام نہ تھا چنانچہ اس نے خود ہی اپنے آپ کو ٹیچر کے عہدے پر فائز کیا، دوچار دن اس عہدے پر رہنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ کیوں نہ اپنا اسکول کھولاجائے کہ اسکول میں لڑکوں کو جاہل بنانے کے علاوہ اورکام تو ہوتا نہیں، یوں اس نے اپنا انگلش ماڈل اسکول کھولا اورپھر مختلف مقامات پر اس کی کئی شاخیں … زیر نگرانی ماہرتعلیم چشم گل چشم ۔
پھر جب ان اسکولوں کو اپنے بیٹوں کے حوالے کیا تو فراغت ہی فراغت تھی اس لیے الیکشنوں میں کھڑے ہونے اورپھر بیٹھنے کا دھندہ شروع کیا، ہرقسم کے الیکشن میں ’’اٹھک بیٹھک‘‘ کا یہ دھندہ اسے اتنا راس آیا کہ کچھ ہی عرصے میں اس نے علامہ بریانی کے چندے کے دھندے کو بھی پیچھے چھوڑدیا ۔لیکن پھر وہ ماجراہوا جس کی وجہ سے اس نے خود تو اس دھندے سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی اوربیٹوں کے حوالے کردیا، جن میں سے ہرایک کسی نہ کسی تحریک پارٹی یا تنظیم کاسربراہ ہے ۔
ماجرا یوں تھا کہ جب وہ ایک مرتبہ صوبائی اسمبلی کا امیدواربن کر کھڑا ہوگیا تو اس کے مقابل چار امیدوار بھی سازشاً یااتفاقاً اسی کیٹگری کے نکلے چنانچہ کمپین کے انتہائی عروج کے وقت وہ چاروں اکٹھے اس کے پاس آئے اوراسے یہ خوشخبری سنائی کہ ہم سب نے آپس میں صلاح مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ ہم سب میں زیادہ ہوشیار سمجھ دار تجربہ کار اورایماندار ہیں اس لیے ہم سب آپ کے حق میں دستبردار ہورہے ہیں، اب بیچارے کے پاس بچنے کاکوئی راستہ نہیں تھا چنانچہ ان سب کو ان کا’’خرچہ‘‘ دے کر کھڑے کاکھڑا رہ گیا ، مقابلے میں اب ایک معمولی سا امیدوار رہ گیا تھا جو کسی شمارقطار میں تھا ہی نہیں، لیکن چشم گل چشم اس بات سے قطعی بے خبر رہا کہ اس سازش کے نیچے ایک اورسازش بھی کی گئی ، نتیجہ نکلا تو سارے ووٹ اس معمولی امیدوار کو پڑے تھے ، اس کے حصے میں صرف ’’نو‘‘ ووٹ آئے تھے جو کروڑوں میں پڑے تھے ۔