پیکا ایکٹ کیس؛ وزارت قانون، ایف آئی اے سمیت دیگر کو جواب داخل کرانے کیلیے آخری مہلت
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
متنازع پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو جواب داخل کرانے کے لیے آخری مہلت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے پی ایف یو جے، اینکرز اور صحافتی تنظیموں کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے عمران شفیق ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ اگر جواب داخل نا کرایا تو تب بھی سماعت کو آگے بڑھائیں گے، میرا خیال ہے کہ اس کیس میں لمبا وقت چاہیے، اس کو عید کے بعد ہی رکھیں۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ وفاق نے صرف وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات کے ذریعے جواب داخل کرا دیا ہے، وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امور، پی ٹی اے کی جانب سے جواب ہی جمع نہیں کرایا گیا۔ وفاق نے ایک انوکھا جواب داخل کراتے ہوئے اس عدالت کے دائرہ اختیار پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔
وکیل نے دلائل میں بتایا کہ وفاق نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد صرف ہائیکورٹ کا آئینی بینچ یہ کیس سن سکتا ہے، جب تک ہائیکورٹ کا آئینی بینچ نہیں بنتا تب تک یہ عدالت ہی کیس سن سکتی ہے، یہ اعتراض کسی صورت نہیں بنتا صرف اس لیے اعتراض اٹھایا گیا تاکہ معاملے کو طول دیا جا سکے، دوسرا اعتراض ایک قرآنی آیت کا سہارا لے کر اٹھایا گیا ہے کہ بات پھیلانے سے پہلے اس کی تحقیق کر لیا کرو، لوگوں پر ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں، عدالت اس کیس کو جلد سنے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بھی خبر نہیں چل رہی؟ کوئی خبر دینے یا پبلیکیشن سے روک رہا ہے۔
ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ یہ اسٹے آرڈر دے دیں کہ صحافی پر خبر دینے کی وجہ سے کوئی ایف آئی آر یا گرفتاری نہیں ہوگی، فریقین جواب جمع نہیں کروا رہے اور عدالت سے ٹائم پر ٹائم لے رہے ہیں، اگر عدالت کے آرڈر پر جواب داخل نہیں کرایا جا رہا تو یہ عدالت اور فریقین کے درمیان معاملہ ہے، عدالت ان پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کر کے جواب جمع کرانے کا موقع دے۔
صحافی مظہر عباس نے کہا کہ میڈیا انڈسٹری میں ایک ہراسگی کی فضا پیدا کر دی گئی ہے، ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو طلب کر کے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
وکیل نے کہا کہ فریقین نے جو بھی اعتراض اٹھایا، وہ اٹھا سکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پٹیشن کو سن لیں اور ان کا جواب بھی لے لیں۔ اینکر پرسںز نے کہا کہ پاک بھارت جنگ میں فوج نے میزائل مارے اور ہم نے سوشل میڈیا پر جنگ لڑی ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ کوئی خبر دے ہی نہیں پا رہے؟ وکیل نے بتایا کہ فریقین کو جواب داخل کرانے اور آئندہ سماعت سے قبل جواب کی کاپی پیشگی پٹشنرز کو دینے کی ہدایت کی جائے۔
عدالت نے فریقین کو جواب جمع کرانے کی آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان جسٹس انعام امین منہاس نے جواب داخل نے کہا کہ کو جواب
پڑھیں:
اعتراضات دور کیے بغیر لینڈ ریفارمز ایکٹ قبول نہیں، انجمن امامیہ گلگت بلتستان
اجلاس میں طے ہوا کہ جب تک یہ اعتراضات دور نہیں کئے جاتے تب تک اس ایکٹ کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اعتراضات یہ ہیں کہ 1986ء سے تا ایں دم الائٹمنٹس پر پابندی کے باوجود وفاقی و صوبائی اداروں کے نام الاٹ شدہ ہزاروں کنال زمین کو منسوخ کئے بغیر قانونی تحفظ دینا عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سکردو میں مرکزی انجمن امامیہ بلتستان اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا ایک مشترکہ اجلاس زیر صدارت صدر انجمن امامیہ بلتستان آغا سید باقر الحسینی منعقد ہوا جس میں علامہ سید راحت حسین الحسینی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اجلاس میں گلگت بلتستان کے مختلف سیاسی و سماجی ایشوز پر گفت و شنید ہوئی، بالخصوص لینڈ ریفارمز ایکٹ اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کی گرفتاری پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں طے ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں مرکزی انجمن امامیہ گلگت اور مرکزی انجمن امامیہ بلتستان کا یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ لینڈ ریفارمز ایکٹ میں گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے عوامی اعتراضات کو دور کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کا موقف یہ ہے کہ دریا کے کنارے سے لے کر پہاڑ کی چوٹی تک کی زمین عوام کی ہے اور گلگت بلتستان کے عوام ہی ان زمینوں کے مالک ہیں۔ لہذا لینڈ ریفارمز ایکٹ کو عوامی حقوق کا محافظ ایکٹ بنانے کے لئے اس میں موجود اعتراضات کو دور کیا جائے۔
اجلاس میں طے ہوا کہ جب تک یہ اعتراضات دور نہیں کئے جاتے تب تک اس ایکٹ کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اعتراضات یہ ہیں کہ 1986ء سے تا ایں دم الائٹمنٹس پر پابندی کے باوجود وفاقی و صوبائی اداروں کے نام الاٹ شدہ ہزاروں کنال زمین کو منسوخ کئے بغیر قانونی تحفظ دینا عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ نیز الائٹس شدہ رقبہ جات کو تا حال مخفی رکھا گیا ہے۔ دس فیصد زمین کو سرکار کے نام مختص کرنے کے لئے جو شق رکھی گئی ہے وہ بھی عوامی حقوق کے تحفظ کی منافی ہے۔ زمینوں کے حوالے سے ضلعی سطح پر کمیٹی کے قیام کے لئے منتخب عوامی نمائندوں کی بے توقیری کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو چئیرمین بنا کر مزید با اختیار بنانا نہ صرف عوامی حقوق سے روگردانی کا سبب ہوگا بلکہ منتخب عوامی نمائندوں کے وقار کو بھی مجروح کرنے کا باعث بنے گا۔ ایکٹ میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام پہاڑ عوامی ملکیت ہونگے مگر اس سے پہلے ہی حکومت نے ان تمام پہاڑوں کو آن لائن لیز کے ذریعے مختلف غیر مقامی لوگوں کے نام دے چکی ہے جس پر شدید تحفظات ہے۔
ایکٹ میں زمینوں کے حوالے سے ڈسڑکٹ بورڈ کے فیصلے کو حتمی قرار دے کر سول عدالتوں میں جانے سے روکنے کے لئے جو قانون وضع کیا گیا ہے وہ بھی پاکستانی آئین، قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ گورنر گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس بل کو واپس اسمبلی میں بھیج دیں اور ان تمام اعتراضات کو دور کرنے کے بعد ایکٹ کو حتمی شکل دیا جائے بصورت دیگر عوام اس ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اجلاس میں مزید کہا گیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض اراکین کو عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں بلاجرم و خطا گرفتار کیا گیا ہے لہذا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان گرفتار شدہ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات کو ختم کیا جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ درج بالا مطالبات پر غور نہ ہونے اور عملی اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ہم یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ احتجاجی اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائیں، لہذا درج بالا مطالبات کو حکومتی ارباب فوری طور پر حل کریں بصورت دیگر حکومت کو سخت عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔