Express News:
2025-09-18@17:48:47 GMT

حالات خراب ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

میں نے سب سے پہلے یہ جملہ کہ ’’حالات خراب ہیں‘‘ 1980 میں اپنے والد سے سنا جب میں نے میٹرک کے امتحانات کے بعد اپنے والد سے اپنے اسکول کے گروپ کے ساتھ پاکستان کی سیر پر جانے کی اجازت اور پیسے طلب کیے۔ کچھ میری اپنی ضد اور سب سے بڑھ کر والدہ کی سفارش کے نتیجے میں اجازت اور پیسے دونوں مل گئے۔

پورے سفر کا دورانیہ تئیس دن تھا جس میں تمام شمالی علاقہ جات بھی شامل تھی۔ اخراجات کا تخمینہ اسکول نے ساڑھے چھ سو لگایا تھا کہ جس میں رہائش، کھانا پینا اور چند مخصوص علاقوں کی سیر بھی شامل تھی۔ شاید نئی نسل کو یہ رقم ایک لطیفہ ہی لگے مگر 1980 میں یہ ایک خاصی مناسب رقم ہوتی تھی۔ 

اس سفر سے آنے کے بعد جو جملہ مستقل طور پر میری زندگی کا حصہ بن گیا وہ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’ حالات خراب ہیں‘‘۔ ایسا نہیں کہ اس سفر میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔ سفر بہترین رہا، انتظامات شاندار تھے اور یہ سفر آج بھی میری یادوں کے دریچوں میں ایک خوبصورت یاد کے طور پر محفوظ ہے۔ اس کے بعد ہر دو یا تین سال بعد میں دوستوں کے ساتھ سفر پر جاتا اور شادی کے بعد پہلے صرف بیگم اور بعد میں بچوں کے ساتھ پورا پاکستان دیکھا اور دکھایا۔ ہر سفر سے پہلے والدین سے اجازت ضرور لی لیکن اجازت سے پہلے جو جملہ سننے کو ملتا وہ یہی ہوتا تھا کہ حالات خراب ہیں، نہ جاؤں تو بہتر ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ میں نے سدھر کر دیا اور نہ حالات تبدیل ہوئے۔ ہر سفر سے پہلے یہ جملہ میرا مستقل ساتھی رہا اور آج بھی ہے کہ حالات خراب ہیں۔

اب اس صورتحال میں یہ سوال یا سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حالات کیوں خراب ہیں؟ اور حالات کس کی وجہ سے خراب ہیں؟ دونوں سوالات کے صحیح جواب دینے سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ان سوالات کے درست جوابات دینے پر آپ کی حب الوطنی پر حرف آئے گا بلکہ صاحب حرف کیا پوری پوری چارج شیٹ یا ایف آئی آر یعنی پہلی معلوماتی روداد بھی درج ہوسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ کے حالات یقیناً خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ان سوالات کے درست جواب میں ہی اس مسئلے کا حل پنہاں ہے۔ اگر میں اپنے ’’حالات‘‘ کی ’’امان‘‘ پاؤں تو عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ نظام جو کہ خود ایک ضابطہ ہوتا ہے ایک ’’منظم بے ضابطگی‘‘ کا شکار ہے اور اس کا شکار خود اس کے رکھوالے کھیل رہے ہیں بلکہ کھیل کیا رہے ہیں انھوں نے تو پورے نظام کو ہی ’’رکھیل‘‘ بنا کر رکھا ہوا ہے۔

آج ثنا یوسف کے واقعے کا بہت چرچا ہے اور کل سلمان فاروقی والے واقعے کا بہت شور و غوغا تھا۔ ابھی تھوڑے دن پہلے یہ قوم نتاشا اقبال کو کوس رہی تھی اور پھر وہ وکٹری کا نشان بنا کر باعزت بری ہوگئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور قانون ان کی پیش بندی سے قاصر ہے بلکہ اس کے آگے لاغر اور ناتواں ہیں۔ ان حالات میں سماجی ذرائع ابلاغ غریبوں کا رابن ہڈ یا سلطانہ ڈاکو بن کر نمودار ہوا ہے کہ جس کے آگے اس وقت قانون کے رکھوالے اور قانون شکن یکساں طور پر بےبس ہیں۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ کوئی صحت مندانہ رحجان نہیں ہے بلکہ ایک کمزور، بیمار اور ذہنی طور پر معذور معاشرے کی علامت ہے کہ جس کا انجام سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔

یہ سماجی ذرائع ابلاغ اس وقت ایک مادر پدر آزاد نظام بنا ہوا ہے کہ جو یکطرفہ روداد سنا یا دکھا کر معاشرے میں ہیجانی کیفیت طاری کردیتا ہے اور اس یکطرفہ کارروائی پر معاشرہ اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے اور اس فیصلے کے قانون اپنی کارروائی ضرور کرتا ہے کہ جس سے قانون کی بالادستی ضرور مستحکم ہوتی ہے مگر انصاف شرط نہیں ہوتا۔ 

سماجی ذرائع ابلاغ کیسے کام کرتا ہیں اس پر ایک کہانی اور اختتام۔ ایک بادشاہ کے سامنے ایک مقدمہ رکھا گیا۔ مقدمہ بالکل سیدھا تھا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ مدعی حق پر ہے مگر مدعا علیہ زور زور سے اور چیخ چیخ کر اپنا دفاع کررہا تھا اور اپنا دعوٰی بیان کررہا تھا۔ بادشاہ نے مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا، بعد میں جب دربار نے جان کی امان طلب کرکے اپنی اصلاح کےلیے بادشاہ سے فیصلے کی وجہ پوچھی تو بادشاہ نے جواب دیا کیا تمھیں نہیں پتہ کہ سچ کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا تو جس کی آواز تیز اور اونچی تھی میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر پورا دربار بادشاہ کی ثنا میں گونج اٹھا۔

یہی حقیقت اس وقت سماجی ذرائع ابلاغ کی ہے۔ نظام کی بربادی کے نتیجے ایک متبادل چیز پرورش پارہی ہے کہ جس کو نظام تو بالکل نہیں کہا جاسکتا، ہاں ایک مکمل افراتفری سے پہلے کی ایک شکل ضرور ہے اور اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے اور سدھرے تو پھر ہر چیز کا اللہ ہی حافظ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سماجی ذرائع ابلاغ حالات خراب ہیں ہے کہ جس کے ساتھ سے پہلے کے بعد ہے اور اور اس

پڑھیں:

فیکٹ چیک: ایچ پی وی ویکسین سے بچیوں کی طبیعت خراب ہونے کا دعویٰ، حقیقت کیا ہے؟

 پاکستان میں ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) ویکسین کی قومی مہم کا آغاز ہو چکا ہے، جس کے تحت ملک بھر میں 9 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کو یہ ویکسین فراہم کی جا رہی ہے تاکہ انہیں سروائیکل کینسر جیسے مہلک مرض سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ویکسینیشن مہم کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک مہم دیکھنے میں آئی، جہاں ایک طرف بعض صارفین نے دعویٰ کیا کہ ایچ پی وی ویکسین کا مقصد لڑکیوں کو ماں بننے کی صلاحیت سے محروم کرنا ہے۔ وہیں ایک ویڈیو بھی تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسکول میں بچیوں کو زبردستی ویکسین دی گئی، جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔

????????‍????سکولوں میں زبردستی ویکسینیشن کے بعد کئی بچیوں کی طبیعت خراب ہو گئی اور اُنہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا
????خدارا! اپنے بچوں کے معاملے میں صاف اور دو ٹوک موقف اختیار کریں
☢️دنیا کے سب تجربے ہمیشہ ہم غریبوں پر ہی کیے جاتے ہیں????
????سیلاب زدگان کیلیے مدد نہیں پر مغرب فری ویکسین دے رہا ہے pic.twitter.com/QBr6BJ9OZ0

— Abdullah Gul (@MAbdullahGul) September 16, 2025

فیکٹ چیک:

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسکول کی طالبات کی طبیعت ایچ پی وی ویکسین لگنے کے باعث خراب ہوئی، تاہم متعدد صارفین نے اس ویڈیو کے ساتھ یہ وضاحت شیئر کی ہے کہ یہ دعویٰ سراسر غلط اور گمراہ کن ہے۔

سر بندا اب آپکو کیا کہے۔
یہ ڈڈیال کا مئی 2024 کا واقعہ ہے پولیس کی طرف احتجاج کر نے والو پر آنسو گیس شیلنگ کی وجہ سے کچھ بچوں کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کو اسپتال لایا گیا https://t.co/XlFX6JUkjV

— iffi (@iffiViews) September 16, 2025

درحقیقت، یہ ویڈیو 2024 میں آزاد کشمیر کے شہر ڈڈیال کے ایک اسکول کی ہے، جہاں 9 مئی کے حوالے سے نکالی گئی احتجاجی ریلی کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ اس دوران آنسو گیس کی شیلنگ کے نتیجے میں ہائی اسکول کی کم از کم 22 طالبات بے ہوش ہو گئی تھیں، جبکہ اسسٹنٹ کمشنر سمیت 12 پولیس اہلکار بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کا ایچ پی وی ویکسین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ڈڈیال پولیس ریاستی اور غیر ریاستی فورس کا آنسو گیس دیگر زہریلی گیس کا استعمال جس سے سکول کے بچے بے ہوش ذرائع کے کچھ بچوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے pic.twitter.com/LJVFddOaD9

— sardar tahir (@sardartahir8685) May 9, 2024

یہ بھی پڑھیں: 9 مئی کو آزاد کشمیر میں حالات کیسے بے قابو ہوئے ؟

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس مہم کے لیے 49 ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی گئی ہے، جو لڑکیوں کو ایک ڈوز ویکسین دیں گے۔ یہ ویکسین پاکستان کو دنیا کے 150ویں ملک کی حیثیت دے گی جو ایچ پی وی ویکسین متعارف کرا رہا ہے۔

مہم پبلک اسکولوں، ہیلتھ سینٹرز، کمیونٹی مراکز اور موبائل ٹیموں کے ذریعے چلائی جائے گی۔ والدین کو آگاہی دینے کے لیے وائس میسیجز اور کمیونٹی سیشنز کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ افواہوں اور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایچ پی وی ڈبلیو ایچ او سروائیکل کینسر ہیومن پیپیلوما وائرس

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • فیکٹ چیک: ایچ پی وی ویکسین سے بچیوں کی طبیعت خراب ہونے کا دعویٰ، حقیقت کیا ہے؟
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • آزاد کشمیر کے حالات خراب کرنے کی کسی بھی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائےگا، آل پارٹیز کانفرنس
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا