Express News:
2025-07-24@03:09:16 GMT

لنگرخانہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

کہتے ہیں خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اُجاگر کرے کہ وہ شخصیت اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانبداری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعے میں لے آئے۔ ’’لنگرخانہ‘‘ ایسے ہی اوصاف، ایسے ہی احساسات کی آئینہ دار ہے۔

جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشاق کالم نویس و کہانی نویس ہیں۔ انھوں نے سیتہ جیت رے کی مشہور فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کے مکالمے بھی لکھے ہیں، لنگرخانہ میں انھوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ مذکورہ شخصیت اپنے اطراف میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، اس کتاب میں کل آٹھ خاکے ہیں، جاوید صدیقی نے عام لوگوں کے خاکے بھی بڑے دل سے لکھے ہیں، خاص کر بیکس دہلوی اور اکبری بوا۔ لنگرخانہ میں کیفی اعظمی، ایف ایم حسین کے خاکے بھی قابل مطالعہ ہیں۔

آئیے! سب سے پہلے سیتہ جیت رے کے خاکے سے کچھ اقتباسات آپ کی نذر ہیں۔

’’سیتہ جیت رے عالمی سینما میں ایک بہت اونچا مقام رکھتے ہیں، مگر خود بھی اتنے اونچے ہوں گے، میں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ جب چھ فٹ چار انچ کے رے صاحب نے دروازہ کھولا تو میرا منہ بھی کھل گیا، اور دیر تک کھلا رہا۔ وہ ایک شان دار شخصیت کے مالک تھے لیکن دبلے نہیں تھے، سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، سلیقے سے جمے ہوئے بال، بڑی بڑی روشن آنکھیں، اونچی ستواں ناک، مسکراتے ہوئے ہونٹ، ٹھوڑی ذرا چوڑی تھی، کہا جاتا ہے ایسی ٹھوڑی والے محنتی اور مستقل مزاج ہوتے ہیں۔

’’مانک دا (سیتہ جیت رے بنگالی تھے اور ان کے قریبی ساتھی انھیں ’’ مانک دا‘‘ کہہ کر بلاتے تھے) ہاں تو مانک دا نے ایک چھوٹی سی کہانی کو کافی پھیلا دیا تھا اور اس وقت کی سیاست کو بڑی خوبصورتی سے کہانی کے اندر لے آئے تھے۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اوودھ کے آخری تاج دار واجد علی شاہ کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی کمزوریوں کا ذکر کیا تھا مگر اسے ایک ایسا بادشاہ دکھایا تھا جو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریزوں کی سیاست کی وجہ سے حکومت کھو بیٹھتا ہے۔

 اردو کا کمال یہ ہے کہ اس میں ایک لاموسیقی ہے، اگر قلم کسی جان کار کے ہاتھ میں ہے تو لفظ لفظ نہیں رہتے سُر بن جاتے ہیں میرے اور شمع کے جوش کا یہ عالم تھا کہ اپنا ہوش نہیں تھا، روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کام کرتے مگر ذرا سی بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

’’سیتہ جیت رے کو ستیہ جیت رے بنانے میں ’’ بودی‘‘ کا بڑا ہاتھ تھا (بہودیدی) بڑی ہی پیاری اور محبت کرنے والی خاتون تھیں،کہا جاتا ہے کہ فلم ’’یاتھر‘‘ پنجابی آدھے میں ہی بند ہو گئی تھی، کیونکہ پیسے ختم ہو گئے تھے۔

اس وقت بودی نے اپنے سارے زیور گروی رکھ کر کہا:

’’زیور تو جب چاہو بن سکتا ہے یاتھر پنجابی بار بار نہیں بن سکتی۔‘‘

دوسرا اہم خاکہ ہے ایف ایم حسین کا جو ہمیشہ ننگے پاؤں رہتے تھے۔ پہلے مادھوری کے عشق میں گرفتار تھے اور ’’گج گامنی‘‘ جیسی بہترین فلم بنائی۔ پھر انھیں تبو اچھی لگنے لگی تو فلم ’’میناکشی‘‘ بنائی اور داد پائی۔ دیوی دیوتاؤں کی پینٹنگ کیں تو انتہا پسندوں کو آگے کر دیا گیا، جنھوں نے کہا کہ حسین صاحب نے ہمارے دیوی دیوتاؤں کی توہین کی ہے جب کہ مندروں میں جو دیوی دیوتاؤں کی تصاویر اور ان کے آسن بتائے گئے ہیں وہ تو بہت معیوب معلوم ہوتے ہیں لیکن حسین صاحب کو بھارت چھوڑنا پڑا اور پھر قطر نے انھیں فوراً ہی اپنی شہریت دے دی لیکن وہ آخر دم تک ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔

’’کچھ دنوں بعد ایک خبر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ سارے اخبارات میں دکھائی دی کہ ملک کے نامور پینٹر ایم ایف حسین کو ویلنگ ڈن کلب سے اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے اور انگریزی تہذیب جوتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ حسین صاحب کبھی جوتے پہنتے ہی نہیں، ہمیشہ ننگے پاؤں رہتے ہیں اور اسی حال میں ساری دنیا گھومتے ہیں، طرہ یہ کہ حسین صاحب کی تصویر بھی چھپی تھی، اچانک مجھے یاد آیا:

’’ارے انھی کو تو میں نے بھنڈی بازار کے فٹ پاتھ پر دیکھا تھا، تو یہ ہیں مشہور و مقبول فدا حسین جن کے بہت چرچے سنے ہیں ہم نے۔‘‘

’’اور پھر انھوں نے چائے بنانا شروع کی، چائے کو اتنا ابالا کہ پتیوں کا دم ہی نکل گیا، پھر اس میں دودھ اور شکر ڈال کر اس وقت تک کھولاتے رہے جب تک وہ برتن سے باہر نہ نکلنے لگے، مگر حسین صاحب نے معاف نہیں کیا، جب چائے کا رنگ کسی ساؤتھ انڈین حسین کے گالوں جیسا سرخی مائل سانولا ہو گیا تو بڑی احتیاط سے ایک گلاس میں چھانا اور فرمایا ’’اسے کہتے ہیں چائے۔‘‘ حسین صاحب کی چائے کی چاہت کے درجنوں قصے مشہور ہیں، جنھیں سن کر مولانا آزاد کی غبار خاطر والی چائے کچھ پھیکی لگنے لگتی ہے، ورلی کافیئر ڈیل، پوری بندر کانیو ایمپائر، کولایہ کا بغدادی، بھنڈی بازار کا کیفے نظاری کی کرسیاں اور پرانے ویٹر آج بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ حسین نے وہاں کتنے ہزار پیالیاں اپنی پسندیدہ چائے کی خالی کی ہوں گی۔ ان تمام ہوٹلوں میں ان کی کرسی اور ٹیبل مخصوص تھی، بلکہ ویٹر بھی خاص ہوتا تھا جو ان کے مزاج اور پسند کو سمجھتا تھا۔ فیئرڈیل کے حمید بھائی ان کے پسندیدہ ویٹر تھے۔ وہ چائے پلاتا رہتا اور حسین صاحب اس سے دنیا بھر کی باتیں کرتے رہتے۔ چائے پیتے وقت وہ ایک پاؤں کرسی کے اوپر رکھ لیا کرتے تھے۔

’’حسین صاحب نے بتایا وہ سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے، حسین صاحب کو کوئی کام نہیں آتا تھا، سوائے پینٹنگ کرنے کے۔ کام کی تلاش میں گھوم رہے تھے کہ فاک لینڈ روڈ پر ایک آدمی پہ نظر پڑی جو زمین پہ کپڑا بچھائے تصویر بنانے کی کوشش کر رہا تھا یہ کسی فلم کی ہورڈنگ تھی۔ حسین بہت دیر تک اسے دیکھتے رہے، پھر اس آدمی کے پاس جا کر بولے۔

’’مجھے بھی کوئی کام دیجیے۔‘‘ اس آدمی نے اس دبلے پتلے لمبے لڑکے کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا۔

’’کیا کرنا آتا ہے؟‘‘

’’حسین نے کہا ’’ کچھ تصویریں بنا لیتا ہوں۔‘‘

اس آدمی نے برش حسین کے ہاتھ میں دیا اور کہا ’’بناؤ‘‘ حسین نے ہورڈنگز بنانی شروع کیں اور وہیں ڈیرا جما لیا، رات کو فٹ پاتھ پر سو جایا کرتے اور صبح کو ناشتہ کرنے ’’حسینی کھچڑی والا‘‘ کی دکان پہ چلے جایا کرتے جو پانچ پیسے میں ایک پلیٹ کھچڑی بیچتا تھا اور دال مفت مل جاتی تھی، حسینی حسین صاحب پہ مہربان بھی بہت تھا، مہینوں ادھار کھلاتا رہا۔

’’بی حضور‘‘ جاوید کی نانی کا خاکہ ہے، لکھتے ہیں۔

’’حوریں اگر بوڑھی ہوتیں تو بالکل میری نانی جیسی لگتیں۔‘‘

’’میں اپنی نانی کو ’’بی حضور‘‘ کہا کرتا تھا کیونکہ ان کے باقی نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جن کی تعداد 29 ہوتی تھی، یہی کہا کرتے تھے مگر وہ دور دور تک کھڑاؤں والی سیدانی کے نام سے مشہور تھیں، کیونکہ انھوں نے کبھی جوتا چپل نہیں پہنا تھا، شادی کے وقت بھی سہاگ کے جوڑے کے ساتھ کھڑاؤں پہن کر سسرال آئی تھیں اور کھڑاؤں بھی ویسی جیسی شری رام پہنتے تھے، جو بعد میں بھرت جی نے لے جا کر ایودھیا کے سنگھاسن پہ رکھ دی تھیں۔ نانی کھڑاؤں والی سیدانی کے علاوہ بھی کئی ناموں سے مشہور تھیں، مثلاً اللہ والی سیدانی اور بیری والی سیدانی اس لیے کہ ان کے لمبے چوڑے آنگن میں بیری کے آٹھ درخت تھے۔‘‘

اور یہ اقتباس ہے ’’ اکبری بوا‘‘ میں سے جو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ باپ دودھ کا کاروبار کرتے تھے، انھوں نے جہیز میں اکبری کو دو بھینسیں بھی دیں، لیکن اولاد نہیں دی۔ اکبری بوا نے شوہر کی دوسری شادی کروا دی اور سوکن کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا، جب اس کے ہاں اولاد ہو گئی تو اولاد کو بھی بڑے ناز و نعم میں پالا، لیکن جب بچہ چلنے پھرنے لگا تو سوکن نے پَر پرزے نکالنے شروع کر دیے اور ایک دن سوکن بچے کے جوان پٹھان مولوی کے ساتھ فرار ہوگئی، سوکن سے لڑائی کی وجہ سے اکبری نے طلاق لے لی اور گزارے کے لیے دہی پھلکیاں بنا کر بیچنے لگیں۔

’’اکبری بوا کی دہی پھلکیاں دوا دور مشہور تھیں مگر گھروں کے اندر انھوں نے کبھی سڑک یہ اپنا خوانچہ نہیں لگایا، نہ ہی اپنی ٹوکری لے کر میلے ٹھیلے گئیں ایک گھر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں گھومتی رہیں ان کے ہاتھ میں ایسی لذت تھی کہ جہاں جاتیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں ریاست کے شاہی رکاب دار بھی بوا کی پھلکیاں کھا کر پیالی اور انگلیاں دونوں چاٹ لیا کرتے تھے، یہی حال ان کے سیخ کباب کا تھا جب سردیاں آتیں تو بوا گرم گرم سیخ کباب لے کر نکلتیں اور اکثر ایسا ہوتا کہ تمام سیخ کباب ایک دو گھروں میں ہی ٹھکانے لگ جاتے۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: والی سیدانی اکبری بوا کرتے تھے انھوں نے کہ حسین کے ساتھ اور ان

پڑھیں:

زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!

آفتاب احمد خانزادہ

10اگست 1976کو شمالی آئر لینڈ کے شہر بلفاسٹ کی گلیوں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا تھا۔ ایک آدمی فرار کی کوشش میں پیچھا کرنے کے والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنی گاڑی لے کر ایک گلی میں پہنچ گیا تھا ،اچانک گولی چلنے کی آواز آتی ہے، مہلک زخمی ڈرائیور گاڑی کے اسٹیر نگ پر گر جاتاہے، گاڑی چکرا کر ایک باڑ سے ٹکرا جاتی ہے اور ایک ماں اور تین بچوں پر چڑھ جاتی ہے ۔ماں اگر چہ شدید زخمی ہوئی مگر بچ گئی جب کہ اس کے تینوں بچے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے ۔یقینا یہ واقعہ اتنا عجیب نہیں تھا جس زمین پر بھی جنگ اپنے پنجے گاڑتی ہے خو ف اور تشدد پھوٹ پڑتے ہیں۔ بچوں کی ہلاکت کسی طرح بھی قابل ذکر نہیں ہوتی ۔ مگر 1976 کے اگست میں بلفا سٹ کے اس واقعے نے بالکل ہی مختلف نتیجہ پیش کیا ۔اس علاقے میں جہاں تین بچے ہلاک ہوئے تھے ۔ایک گھر یلو خاتون رہتی تھی اس نے کار کے باڑ سے ٹکرانے کی آواز سنی اور جوں ہی وہ موقع کی طرف دوڑ کر پہنچی۔ اس کی آنکھوں میں خوف کا پورا منظر سما گیا ۔اس منظر نے اس کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ مزید یہ ہوا کہ اس پر تشدد اور دہشت انگیز واقعے کے خلاف کچھ کر گزرنے کی پر جو ش خواہش اس پر طاری ہوگئی اوہ خدا ! اب ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا ۔مشورے کرنے کے یا منصوبے بنانے کے لیے وقت نہیں تھا ۔اس نے اس انداز میں سو چا ہی نہیں۔ بس وجدانی کیفیت میں وہی کچھ کیا جو اس کے دل نے کہا۔ وہ اس سٹر ک پر واقع ہر مکان پر گئی جہاں یہ حادثہ ہوا تھا ۔خوف کا لبریز پیا لہ الٹ چکا تھا ۔وقت آگیا تھا کہ ہر عام مر د اور عورت کو ایسے بے رحم تشدد پر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ اب یہ سیاسی رویو ں یا مذہبی عقائد کا معاملہ نہیں رہ گیا تھا ۔بس اس کا ایک ہی علاج تھا عوام خود اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ریڈیواور ٹیلی ویژن نے ایک گھریلو عورت کی مہم میں کچھ دلچسپی دکھائی اور اسے دہشت کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آئرش عوام کے نام ایک اپیل نشر کر نے کا موقع فراہم کیا ۔اس کی اپیل کا فوراً جواب ملا زیادہ سے زیادہ لوگوں نے ان کی پکار پر لبیک کہا سب سے پہلے تینوں بچوں کی خالہ آگے بڑھی اور ان دو عورتوں نے مل کر جنگ زدہ علاقے کی طرف اپنے صلح کے سادہ مگر دل کو چھو لینے والے پیغام کے ساتھ دلیر ی سے قدم بڑھائے ، اس مختصر سی ابتداء سے آج ساری دنیا میں وہ کچھ ہوا جس کو شمالی آئر لینڈ کی امن تحریک کے نام سے جانا جاتاہے ۔1976 کا نوبیل انعام گھریلو خاتون بیٹی ولیمز اور تینوں بچوں کی خالہ مریڈ کو ریگن کو دیاگیا ۔ یہ عورتیں اپنی مہم میں کیوں کامیاب ہوئیں اس کی وجہ یہ ہے کہ محاذ جنگ کے دونوں جانب اس کی آرزو نے جڑیں پکڑ لیں تھیں۔ ان دونوں عورتوں نے جو کچھ کہا وہ ہزاروں دلوں کے خیالات کی گونج تھیں، اس لیے وہ عام ذہانت کی ترجمان بن گئیں۔ انہوں نے غلط سمت سے شروعات کی اوپر سے نہیں چالاک ذہنوں کے درمیان سے نہیں جو سیاسی بصیرت کے حامل تھے نہیں ، انہوں نے عام آدمی سے رابطہ کیا ۔ایک کھر ے اور ساد ہ پیغام کے ساتھ ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی مشکلات کی پرواہ نہیں کی بس وہ اپنے کام میں جتی رہیں اس لیے کہ انہیں پورا یقین تھا کہ یہ کچھ ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ ایک باہمت، بے غر ض ، عمل جو ہزاروں کے لیے روحانی فیضان ثابت ہوا جس نے ظلمت میں ایک شمع روشن کی جس نے ان لوگوں کو نئی امید دلائی جو سمجھتے تھے کہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں ۔ آج اگر ہم پاکستان میں امید کو ڈھونڈنے نکلیں تو ہر جگہ ہمارااستقبال مایوسی پہلے سے کررہی ہوگی ۔ ہم امید کو ملک میں کہیں بھی تلاش نہیں کر پائیں گے۔ ہاں نا امیدی ، مایوسی اور بے بسی سے ہماری ملاقات نہ چاہتے ہوئے بھی باربار خود بخو د ہوتی چلی جائے گی۔ آج پاکستان میں سب بے بس ہیں ،سب خوفزدہ ہیں بے بسی اور خوف کا آپس میں کیا تعلق ہے، آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دو چار ہوجاتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو دکھائی اور سجھائی نہیں دے رہی ہو اور آپ کا دل اور ذہن شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیں ۔ جب آپ کے دل اور ذہن میں ہولوں کاغبا ر گر دش کرنے لگے جب آپ کے اعصاب ، حوصلہ ، جذبہ ، ہمت آپ کے دشمن بن جائیں ۔ تو آپ بے بس ہوجاتے ہیں اور جب آپ بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر اسی لمحے آپ کی تاک میں بیٹھے خوف آپ کو دبو چ لیتے ہیں ۔روزگار کا خوف ،بے عزتی کا خوف، بے اختیاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، پانی ، بجلی ، صحت کا خوف ،بیماریوں کے خو ف پھرآ پ کے اندر ننگا ناچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر آپ ناامیدی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، آج ہم سب کو اپنی ناامیدی کے علاوہ اور کسی بات کا ہوش نہیں ۔ آج ہم سب اپنی اپنی نظروں میں بے تو قیر ہیں۔ سب سے زیادہ وحشت ناک صورتحال یہ ہے کہ ہم سب اس کو اپنی آخری منزل سمجھے بیٹھے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی جب امید مرتی ہے تو ناامیدی پیداہوتی ہے، جب ناامیدی مرتی ہے تو ایک بار پھر امید پیداہوتی ہے ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو بیٹی ولیمز اور مریڈ کوریگن کبھی بھی اس وحشت ، دہشت اور ناامیدی کے حالات میں اپنے گھروں سے نہیں نکلتیںاور کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتیں ۔ کیا ہم ان دونوں گھریلو خواتین سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں ، جو ناامیدی ،مایوسی کے خلاف اور اپنی بے بسی کے خلاف اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ان کے خلاف بولنے، اٹھنے اور دوسروں کو آواز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔یاد رکھیں یہ زندگی آپ کو صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے۔ اگر آپ ان ہی حالات میں زندہ رہنے پر اضی ہیں تو پھر الگ بات ہے۔ اگر نہیں تو پھر شمالی آئرلینڈ کی ان دونوں گھریلو خواتین کی طرح بس آپ کو عام لوگوں کو آواز دینے کی ضرورت ہے پھرآپ دیکھیں گے کہ کس طرح عام لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔یاد رکھیں عام لوگ آپ کی آواز کے منتظر ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • ’اسلام کا دفاع‘
  • متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرینگے، کسی جگہ پر قبضہ ہونا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی ناکامی: مریم نواز
  • پاراچنار میں یوم حسینؑ
  • بینک فراڈ کیس، نادیہ حسین کے شوہر کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • دوسرا ٹی 20،بنگلا دیش نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو شکست دیکر سیریز جیت لی
  • دوسرا ٹی ٹوئنٹی: بنگلا دیش کا پاکستان کو جیت کیلئے 134 رنز کا ہدف
  • دوسرا ٹی 20: پاکستان کا بنگلادیش کیخلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • جو برا کرے گا انجام بھگتے گا، عروہ حسین بھی علیزے شاہ کی حمایت میں بول اٹھیں
  • آرٹس کونسل کراچی کے تحت محفل مسالمہ و نیاز امام حسینؑ