Express News:
2025-06-06@17:31:22 GMT

لنگرخانہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

کہتے ہیں خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اُجاگر کرے کہ وہ شخصیت اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانبداری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعے میں لے آئے۔ ’’لنگرخانہ‘‘ ایسے ہی اوصاف، ایسے ہی احساسات کی آئینہ دار ہے۔

جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشاق کالم نویس و کہانی نویس ہیں۔ انھوں نے سیتہ جیت رے کی مشہور فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کے مکالمے بھی لکھے ہیں، لنگرخانہ میں انھوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ مذکورہ شخصیت اپنے اطراف میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، اس کتاب میں کل آٹھ خاکے ہیں، جاوید صدیقی نے عام لوگوں کے خاکے بھی بڑے دل سے لکھے ہیں، خاص کر بیکس دہلوی اور اکبری بوا۔ لنگرخانہ میں کیفی اعظمی، ایف ایم حسین کے خاکے بھی قابل مطالعہ ہیں۔

آئیے! سب سے پہلے سیتہ جیت رے کے خاکے سے کچھ اقتباسات آپ کی نذر ہیں۔

’’سیتہ جیت رے عالمی سینما میں ایک بہت اونچا مقام رکھتے ہیں، مگر خود بھی اتنے اونچے ہوں گے، میں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ جب چھ فٹ چار انچ کے رے صاحب نے دروازہ کھولا تو میرا منہ بھی کھل گیا، اور دیر تک کھلا رہا۔ وہ ایک شان دار شخصیت کے مالک تھے لیکن دبلے نہیں تھے، سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، سلیقے سے جمے ہوئے بال، بڑی بڑی روشن آنکھیں، اونچی ستواں ناک، مسکراتے ہوئے ہونٹ، ٹھوڑی ذرا چوڑی تھی، کہا جاتا ہے ایسی ٹھوڑی والے محنتی اور مستقل مزاج ہوتے ہیں۔

’’مانک دا (سیتہ جیت رے بنگالی تھے اور ان کے قریبی ساتھی انھیں ’’ مانک دا‘‘ کہہ کر بلاتے تھے) ہاں تو مانک دا نے ایک چھوٹی سی کہانی کو کافی پھیلا دیا تھا اور اس وقت کی سیاست کو بڑی خوبصورتی سے کہانی کے اندر لے آئے تھے۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اوودھ کے آخری تاج دار واجد علی شاہ کا مذاق اڑانے کے بجائے اس کی کمزوریوں کا ذکر کیا تھا مگر اسے ایک ایسا بادشاہ دکھایا تھا جو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریزوں کی سیاست کی وجہ سے حکومت کھو بیٹھتا ہے۔

 اردو کا کمال یہ ہے کہ اس میں ایک لاموسیقی ہے، اگر قلم کسی جان کار کے ہاتھ میں ہے تو لفظ لفظ نہیں رہتے سُر بن جاتے ہیں میرے اور شمع کے جوش کا یہ عالم تھا کہ اپنا ہوش نہیں تھا، روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کام کرتے مگر ذرا سی بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

’’سیتہ جیت رے کو ستیہ جیت رے بنانے میں ’’ بودی‘‘ کا بڑا ہاتھ تھا (بہودیدی) بڑی ہی پیاری اور محبت کرنے والی خاتون تھیں،کہا جاتا ہے کہ فلم ’’یاتھر‘‘ پنجابی آدھے میں ہی بند ہو گئی تھی، کیونکہ پیسے ختم ہو گئے تھے۔

اس وقت بودی نے اپنے سارے زیور گروی رکھ کر کہا:

’’زیور تو جب چاہو بن سکتا ہے یاتھر پنجابی بار بار نہیں بن سکتی۔‘‘

دوسرا اہم خاکہ ہے ایف ایم حسین کا جو ہمیشہ ننگے پاؤں رہتے تھے۔ پہلے مادھوری کے عشق میں گرفتار تھے اور ’’گج گامنی‘‘ جیسی بہترین فلم بنائی۔ پھر انھیں تبو اچھی لگنے لگی تو فلم ’’میناکشی‘‘ بنائی اور داد پائی۔ دیوی دیوتاؤں کی پینٹنگ کیں تو انتہا پسندوں کو آگے کر دیا گیا، جنھوں نے کہا کہ حسین صاحب نے ہمارے دیوی دیوتاؤں کی توہین کی ہے جب کہ مندروں میں جو دیوی دیوتاؤں کی تصاویر اور ان کے آسن بتائے گئے ہیں وہ تو بہت معیوب معلوم ہوتے ہیں لیکن حسین صاحب کو بھارت چھوڑنا پڑا اور پھر قطر نے انھیں فوراً ہی اپنی شہریت دے دی لیکن وہ آخر دم تک ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔

’’کچھ دنوں بعد ایک خبر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ سارے اخبارات میں دکھائی دی کہ ملک کے نامور پینٹر ایم ایف حسین کو ویلنگ ڈن کلب سے اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے اور انگریزی تہذیب جوتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ حسین صاحب کبھی جوتے پہنتے ہی نہیں، ہمیشہ ننگے پاؤں رہتے ہیں اور اسی حال میں ساری دنیا گھومتے ہیں، طرہ یہ کہ حسین صاحب کی تصویر بھی چھپی تھی، اچانک مجھے یاد آیا:

’’ارے انھی کو تو میں نے بھنڈی بازار کے فٹ پاتھ پر دیکھا تھا، تو یہ ہیں مشہور و مقبول فدا حسین جن کے بہت چرچے سنے ہیں ہم نے۔‘‘

’’اور پھر انھوں نے چائے بنانا شروع کی، چائے کو اتنا ابالا کہ پتیوں کا دم ہی نکل گیا، پھر اس میں دودھ اور شکر ڈال کر اس وقت تک کھولاتے رہے جب تک وہ برتن سے باہر نہ نکلنے لگے، مگر حسین صاحب نے معاف نہیں کیا، جب چائے کا رنگ کسی ساؤتھ انڈین حسین کے گالوں جیسا سرخی مائل سانولا ہو گیا تو بڑی احتیاط سے ایک گلاس میں چھانا اور فرمایا ’’اسے کہتے ہیں چائے۔‘‘ حسین صاحب کی چائے کی چاہت کے درجنوں قصے مشہور ہیں، جنھیں سن کر مولانا آزاد کی غبار خاطر والی چائے کچھ پھیکی لگنے لگتی ہے، ورلی کافیئر ڈیل، پوری بندر کانیو ایمپائر، کولایہ کا بغدادی، بھنڈی بازار کا کیفے نظاری کی کرسیاں اور پرانے ویٹر آج بھی گواہی دے سکتے ہیں کہ حسین نے وہاں کتنے ہزار پیالیاں اپنی پسندیدہ چائے کی خالی کی ہوں گی۔ ان تمام ہوٹلوں میں ان کی کرسی اور ٹیبل مخصوص تھی، بلکہ ویٹر بھی خاص ہوتا تھا جو ان کے مزاج اور پسند کو سمجھتا تھا۔ فیئرڈیل کے حمید بھائی ان کے پسندیدہ ویٹر تھے۔ وہ چائے پلاتا رہتا اور حسین صاحب اس سے دنیا بھر کی باتیں کرتے رہتے۔ چائے پیتے وقت وہ ایک پاؤں کرسی کے اوپر رکھ لیا کرتے تھے۔

’’حسین صاحب نے بتایا وہ سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے، حسین صاحب کو کوئی کام نہیں آتا تھا، سوائے پینٹنگ کرنے کے۔ کام کی تلاش میں گھوم رہے تھے کہ فاک لینڈ روڈ پر ایک آدمی پہ نظر پڑی جو زمین پہ کپڑا بچھائے تصویر بنانے کی کوشش کر رہا تھا یہ کسی فلم کی ہورڈنگ تھی۔ حسین بہت دیر تک اسے دیکھتے رہے، پھر اس آدمی کے پاس جا کر بولے۔

’’مجھے بھی کوئی کام دیجیے۔‘‘ اس آدمی نے اس دبلے پتلے لمبے لڑکے کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا۔

’’کیا کرنا آتا ہے؟‘‘

’’حسین نے کہا ’’ کچھ تصویریں بنا لیتا ہوں۔‘‘

اس آدمی نے برش حسین کے ہاتھ میں دیا اور کہا ’’بناؤ‘‘ حسین نے ہورڈنگز بنانی شروع کیں اور وہیں ڈیرا جما لیا، رات کو فٹ پاتھ پر سو جایا کرتے اور صبح کو ناشتہ کرنے ’’حسینی کھچڑی والا‘‘ کی دکان پہ چلے جایا کرتے جو پانچ پیسے میں ایک پلیٹ کھچڑی بیچتا تھا اور دال مفت مل جاتی تھی، حسینی حسین صاحب پہ مہربان بھی بہت تھا، مہینوں ادھار کھلاتا رہا۔

’’بی حضور‘‘ جاوید کی نانی کا خاکہ ہے، لکھتے ہیں۔

’’حوریں اگر بوڑھی ہوتیں تو بالکل میری نانی جیسی لگتیں۔‘‘

’’میں اپنی نانی کو ’’بی حضور‘‘ کہا کرتا تھا کیونکہ ان کے باقی نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جن کی تعداد 29 ہوتی تھی، یہی کہا کرتے تھے مگر وہ دور دور تک کھڑاؤں والی سیدانی کے نام سے مشہور تھیں، کیونکہ انھوں نے کبھی جوتا چپل نہیں پہنا تھا، شادی کے وقت بھی سہاگ کے جوڑے کے ساتھ کھڑاؤں پہن کر سسرال آئی تھیں اور کھڑاؤں بھی ویسی جیسی شری رام پہنتے تھے، جو بعد میں بھرت جی نے لے جا کر ایودھیا کے سنگھاسن پہ رکھ دی تھیں۔ نانی کھڑاؤں والی سیدانی کے علاوہ بھی کئی ناموں سے مشہور تھیں، مثلاً اللہ والی سیدانی اور بیری والی سیدانی اس لیے کہ ان کے لمبے چوڑے آنگن میں بیری کے آٹھ درخت تھے۔‘‘

اور یہ اقتباس ہے ’’ اکبری بوا‘‘ میں سے جو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ باپ دودھ کا کاروبار کرتے تھے، انھوں نے جہیز میں اکبری کو دو بھینسیں بھی دیں، لیکن اولاد نہیں دی۔ اکبری بوا نے شوہر کی دوسری شادی کروا دی اور سوکن کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا، جب اس کے ہاں اولاد ہو گئی تو اولاد کو بھی بڑے ناز و نعم میں پالا، لیکن جب بچہ چلنے پھرنے لگا تو سوکن نے پَر پرزے نکالنے شروع کر دیے اور ایک دن سوکن بچے کے جوان پٹھان مولوی کے ساتھ فرار ہوگئی، سوکن سے لڑائی کی وجہ سے اکبری نے طلاق لے لی اور گزارے کے لیے دہی پھلکیاں بنا کر بیچنے لگیں۔

’’اکبری بوا کی دہی پھلکیاں دوا دور مشہور تھیں مگر گھروں کے اندر انھوں نے کبھی سڑک یہ اپنا خوانچہ نہیں لگایا، نہ ہی اپنی ٹوکری لے کر میلے ٹھیلے گئیں ایک گھر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں گھومتی رہیں ان کے ہاتھ میں ایسی لذت تھی کہ جہاں جاتیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں ریاست کے شاہی رکاب دار بھی بوا کی پھلکیاں کھا کر پیالی اور انگلیاں دونوں چاٹ لیا کرتے تھے، یہی حال ان کے سیخ کباب کا تھا جب سردیاں آتیں تو بوا گرم گرم سیخ کباب لے کر نکلتیں اور اکثر ایسا ہوتا کہ تمام سیخ کباب ایک دو گھروں میں ہی ٹھکانے لگ جاتے۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: والی سیدانی اکبری بوا کرتے تھے انھوں نے کہ حسین کے ساتھ اور ان

پڑھیں:

جیل مینول کے مطابق سیکیورٹی انتظامات مکمل ہیں، نئے آئی جی جیل خانہ جات فدا حسین مستوئی کو بریفنگ

کراچی میں ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد عہدہ سنبھالنے والے نئے آئی جی جیل خانہ جات فدا حسین مستوئی نے ملیر ڈسٹرکٹ جیل لانڈھی کا دورہ کیا۔

آئی جی جیل خانہ جات نے جائے واردات کا معائنہ کیا، اس موقع پر ڈی آئی جی اسلم ملک بھی ہمراہ تھے۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل شہاب صدیقی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جیل سے بھاگے 139 قیدی واپس آچکے ہیں جبکہ زلزلے کے دوران ملیر جیل سے بھاگے 76 قیدیوں کی تلاش جاری ہے۔

نئے آئی جی جیل خانہ جات نے سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کی ہدایت دی۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جیل میں سیکیورٹی انتظامات کی مضبوطی کے لیے دن رات کام جاری ہے۔ جیل کی چار دیواری اور عمارتیں مضبوط ہیں، سیکیورٹی کے خدشات نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دروازوں اور کنڈوں کو ڈبل کیا جارہا ہے، عملے کی تعیناتی پر بھی توجہ ہے۔ جیل مینول کے مطابق سیکیورٹی انتظامات مکمل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جیل مینول کے مطابق سیکیورٹی انتظامات مکمل ہیں، نئے آئی جی جیل خانہ جات فدا حسین مستوئی کو بریفنگ
  • قربانی ہر صاحب حیثیت پر فرض ہے، خرم نواز گنڈاپور
  • جسٹس سردار لیاقت حسین چیف جسٹس  آزاد کشمیر ہائیکورٹ تعینات
  • جسٹس سردار لیاقت حسین چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائیکورٹ تعینات
  • چار شادیوں کے حق میں نہیں ہوں مگر اس میں زیادہ قصور عورتوں کا ہے: یاسر حسین
  • شادی کے بعد افیئرز کا ذمہ دار مرد ہے یا عورت؟ یاسر حسین کا بیان وائرل
  • ہمارے لیے آئینی اور قانونی راستے بند کر دیے گئے ہیں، رؤف حسن
  • سونیا حسین لباس کی وجہ سے ایک بار پھر تنقید کی زد میں
  • صحافت کا مرد ِقلندر