ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بعد نیا بجٹ اب ٹیکس شرحوں میں اضافے پر مرکوز ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
محدود گنجائش کے باعث نئے ٹیکس اقدامات کے لیے شہباز شریف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے ٹیکسیشن کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بجائے اب برابری کے نام پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ کم آمدنی والے طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا جواز پیش کیا جا سکے۔
نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت مالی سال 26-2025 کے لیے تقریباً 14 کھرب روپے کی تاریخی محصولات کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو رواں مالی سال کے اندازے سے 22 فیصد زیادہ ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں کے مطابق حکومت نے 4.
اس بڑے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو 655 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات اور مزید 400 ارب روپے نفاذ کے ذریعے جمع کرنا ہوں گے، یہ اعداد و شمار منگل کے کابینہ اجلاس میں فائنل کیے جائیں گے، جس کے بعد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بجٹ تقریر کریں گے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس اہداف کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ موجودہ قوانین کے مؤثر نفاذ پر شکوک و شبہات برقرار ہیں۔
فیلڈ آپریشنز کی سست کارکردگی پر خدشات کے باوجود حالیہ برسوں میں کوئی مؤثر نفاذی اقدامات نہیں کیے گئے، فیلڈ افسران کو آپریشنل گاڑیاں دینے کی تجویز بھی تنقید کے بعد واپس لے لی گئی تھی۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے حکام اب بھی پرامید اندازے پیش کر رہے ہیں، گویا ٹیکس آمدنی میں اچانک اضافہ ہو جائے گا، حالانکہ معیشت کو کئی مشکلات درپیش ہیں، بڑی صنعتیں مسلسل زوال کا شکار ہیں جبکہ رئیل اسٹیٹ اور صارف اشیا کے شعبوں پر بھاری ٹیکسوں نے معاشی سرگرمی کو مزید سست کر دیا ہے۔
جب کلیدی صنعتیں سکڑ رہی ہوں اور صارف اعتماد کمزور ہو رہا ہو، تو اگلے مالی سال کے لیے بڑے محصولات کے اہداف کا حصول غیر یقینی معلوم ہوتا ہے۔
مالی سال 26-2025 کے لیے حکومت کا ٹیکس بمقابلہ جی ڈی پی کا ہدف 12.3 فیصد رکھا گیا ہے، جس میں ایف بی آر کا حصہ 10.6 فیصد، صوبائی محصولات اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل ) شامل ہیں۔
ریونیو کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ اس وجہ سے بھی ہے کہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے مختص رقم کم ہے اور نئے منصوبوں کی تعداد محدود ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی پنجاب اور سندھ کے ترقیاتی بجٹ سے بھی کم ہے۔
اسی دوران، مرکز نے پنجاب اور سندھ سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالی تعاون طلب کیا ہے، جو مرکز کی مالی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، یہ سب عوامل وفاقی حکومت پر اضافی دباؤ ڈال رہے ہیں، جو ٹیکس وصولی اور ترقیاتی اخراجات کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ٹیکس نیٹ میں توسیع سے برابری کی جانب
ٹیکس پالیسی میں شامل حکام کا کہنا ہے کہ اب حکومت ٹیکس نیٹ میں وسعت کی پالیسی کو پیچھے چھوڑ کر برابری پر مبنی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔
اس نئے نقطہ نظر کے تحت کم شرح والے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا، جس سے ایف بی آر کو زیادہ آمدنی حاصل ہونے کی توقع ہے۔
پچھلی حکمت عملی میں خوراک، اسٹیشنری اور کتابوں جیسے ضروری سامان پر بھی ٹیکس چھوٹ منظم انداز ختم کی گئی، تاکہ ٹیکس بیس کو وسعت دی جاسکے۔
اب دوسرے مرحلے میں، ایف بی آر برابری کے اصول کو استعمال کر کے مختلف شعبوں میں کم شرح والے ٹیکسوں میں اضافہ کر رہا ہے، اس حکمت عملی کے تحت منافع، اسٹاک مارکیٹ اور دیگر مالی لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ، تمباکو کی بہتر پروسیسنگ کے لیے بڑی مشینوں (تھریشرز) کے استعمال کو لازم قرار دینے اور یونٹ لیول پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ تمباکو کے شعبے سے زیادہ ریونیو حاصل کیا جا سکے۔
ایف بی آر نے بینکنگ ذرائع سے لین دین کے نئے اصول پر عمل درآمد کی بھی منصوبہ بندی کی ہے، جس میں ڈیجیٹل لین دین پر کم اور نقد لین دین پر زیادہ ٹیکس لگے گا۔
یہ طریقہ کار فائلر اور نان فائلر کے موجودہ فرق کی جگہ لے گا۔
لیکن اصل امتحان یہ ہوگا کہ آیا ٹیکس شرحوں میں یہ اضافہ محصولات بڑھا سکے گا یا معیشت کو مزید دباؤ میں لے آئے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صنعت اور سرمایہ کاری کے شعبے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایف بی آر نے نئے ٹیکس اقدامات کے تحت سولر پینلز، تیار شدہ کھانے اور کاربن پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاری کی ہے، تاکہ مالیاتی دباؤ کے درمیان ریونیو ذرائع کو وسیع کیا جاسکے۔
یہ ٹیکس اقدامات صارفین اور کاروباری حلقوں میں تشویش پیدا کر سکتے ہیں، خاص طور پر قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں سولر پینلز پر ٹیکس، مہنگی بجلی اور توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان میں صاف توانائی کو فروغ دینے کی حوصلہ شکنی کرے گا، اسی طرح، تیار شدہ خوراک پر اضافی ٹیکس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا، جس سے عام لوگوں کے بجٹ پر دباؤ بڑھے گا۔
البتہ، زرعی شعبے کو عارضی ریلیف دینے کے لیے حکومت نے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس چھوٹ کے لیے آئی ایم ایف سے رعایت حاصل کر لی ہے۔
یہ رعایت مزید ایک سال کے لیے دی گئی ہے، تاکہ بڑھتی ہوئی لاگت اور غیر یقینی مارکیٹ کے حالات کے باعث پریشان کسانوں کو کچھ سہولت مل سکے۔
دوسری جانب، تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ ریلیف کی امید ہے، حکام کے مطابق نچلے ٹیکس سلیب میں ٹیکس استثنیٰ کی حد بڑھائی جا سکتی ہے اور تقریباً ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن والوں کے لیے شرح میں کمی کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
Post Views: 2ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹیکس اقدامات میں اضافہ ایف بی آر ٹیکس نیٹ مالی سال کرنے کی پر ٹیکس لین دین کیا جا کے لیے کے تحت
پڑھیں:
نیشنل سیونگز اسکیمز میں منافع کی شرحوں میں ردوبدل کا فیصلہ
اشرف خان: نیشنل سیونگز اسکیمز میں منافع کی شرحوں میں ردوبدل کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا اطلاق 17 ستمبر 2025 سے مؤثر ہوگا۔ سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز نے نئی شرحوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
شارٹ ٹرم سیونگز پر شرح منافع میں 6 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد یہ شرح 10.6 فیصد سے بڑھا کر 10.42 فیصد کر دی گئی ہے۔ سروا اسلامک سیونگ اکاؤنٹ اور سروا اسلامک ٹرم اکاؤنٹ پر سالانہ منافع 9.50 فیصد سے بڑھا کر 9.92 فیصد کر دیا گیا ہے، یعنی 42 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں مشرق ڈیجیٹل بینک کا آغاز، امارات سے پاکستانی مفت ترسیلات زر بھیج سکیں گے
اس کے برعکس، ڈیفنس سیونگز سرٹیفکیٹس پر شرح منافع میں 12 بیسس پوائنٹس کی کمی کی گئی ہے، اور نئی شرح 11.54 فیصد سے کم ہو کر 11.42 فیصد ہو گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تبدیلیاں حالیہ مانیٹری پالیسی کے تناظر میں کی گئی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھی ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل سیونگز کو ملک کا سب سے بڑا مالیاتی ادارہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں عوام کی جانب سے اب تک 3400 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔
کویتی شہریت سے محروم افراد کے لیے بڑی خوشخبری