UrduPoint:
2025-11-02@17:27:33 GMT

پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT

پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) پاکستان آئندہ مالی سال کے لیے اپنے سالانہ وفاقی بجٹ آج منگل کے روز پیش کر رہا ہے، جس میں معاشی شرح نمو کو رفتار دینے کی کوشش کی جائے گی، جبکہ گزشتہ ماہ بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد دفاعی اخراجات میں متوقع اضافے کے لیے وسائل تلاش کرنے کی بھی کوشش ہو گی۔

یہ بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے جب اسلام آباد کو اپنے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پروگرام کے نظم و ضبط کے اندر رہتے ہوئے معیشت کو بحال کرنا ہے۔

امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور اس صورت میں واشنگٹن کی جانب سے نئے تجارتی محصولات کے نفاذ کی غیر یقینی صورتحال کا بھی اسے سامنا ہے۔

پاکستان: رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 2.

7 فیصد رہنے کی توقع

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 17.6 ٹریلین روپے (62.45 بلین ڈالر) کا بجٹ پیش کرے گی، جو رواں مالی سال کے بجٹ سے 6.7 فیصد کم ہے۔

(جاری ہے)

اطلاعات کے مطابق حکومت نے جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) کے 4.8 فیصد کے مالیاتی خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ 2024-25 میں اس خسارے کا ہدف 5.9 فیصد تک تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس بار اپنے دفاعی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو ممکنہ طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیوں سے پورا کیا جائے گا۔

پاکستان کا تقریباً انیس ٹریلین کا بجٹ، عوام کے لیے بھی کچھ ہے؟

پاکستان نے اپنے پچھلے بجٹ میں دفاع کے لیے 2.1 ٹریلین پاکستانی روپے (7.45 بلین امریکی ڈالر) مختص کیے تھے، جس میں دو بلین ڈالر کے عسکری آلات اور دیگر اثاثے بھی شامل تھے۔

اس بجٹ میں فوجیوں کے پنشن کے لیے اضافی 563 بلین روپے (1.99 بلین ڈالر) مختص کیے گئے تھے، جن کا شمار سرکاری دفاعی بجٹ میں نہیں کیا جاتا ہے۔

بھارت نے اپنے رواں سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 78.7 بلین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی تھی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 9.5 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں فوجیوں کی پینشن اور ہتھیاروں کے لیے 21 بلین ڈالر کی رقم بھی شامل تھی۔

بھارت نے بھی مئی میں پاکستان کے ساتھ تنازعے کے بعد دفاعی اخراجات میں اضافے کا اشارہ کیا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے 2025-26 میں 4.2 فیصد اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے معیشت کو مستحکم کیا ہے، جو حال ہی میں 2023 تک اپنے قرضوں کی ادائیگی کے خطرے سے دوچار تھی۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں 3.6 فیصد کے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں، رواں مالی سال میں شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

خطے میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2024 میں، جنوبی ایشیائی ممالک میں اوسطاً 5.8 فیصد کی شرح سے معیشتوں نے ترقی کی، جبکہ 2025 میں 6.0 فیصد کی شرح نمو کی توقع ہے۔

بلوچستان کی محرومیوں پر توجہ دیں گے، شہباز شریف

شرح سود میں کمی کافی نہیں

حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے سود کی شرح میں کمی کے بعد، قرض لینے کی لاگت میں تیزی سے کمی آنے کے سبب معیشت کی توسیع میں مدد ملنی چاہیے۔

لیکن ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ ایسی اصلاحات کے ہوتے ہوئے صرف مالیاتی پالیسی کا نفاذ کافی نہیں ہے، جو سرمایہ کاری پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کے روز کہا کہ وہ ماضی میں پاکستان کے عروج اور ٹوٹ پھوٹ کے چکر سے بچنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے جو میکرو اکنامک استحکام حاصل کیا ہے، ہم بالکل اسی پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

اس بار ہم بہت واضح ہیں کہ ہمیں موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔"

توقع ہے کہ بجٹ میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے، زراعت سے متعلق انکم ٹیکس کے قوانین کو نافذ کرنے اور صنعت کو دی جانے والی حکومتی رعایات کو کم کرنے کو ترجیح دی جائے گی، تاکہ گزشتہ موسم گرما میں دستخط کیے گئے آئی ایم ایف کے سات بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔

ٹیکس حکام کے مطابق سن 2024 میں صرف 1.3 فیصد آبادی نے انکم ٹیکس ادا کیا، جس میں زراعت اور بیشتر خوردہ شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اصلاحات کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرے، جس میں زراعت، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانا شامل ہے۔

گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس ایس اینڈ پی کے سینیئر ماہر اقتصادیات احمد مبین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی توقع ہے کہ 2025-26 کے لیے محصول کا ہدف حاصل نہیں ہو پائے گا۔

پاکستان مہنگائی میں کمی کا ہدف پورا کرے، آئی ایم ایف

مبین نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ "یہ کمی اس لیے رہے گی، کیونکہ زیادہ تر اعلان کردہ اقدامات کا نفاذ نہیں ہو پاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی عام طور پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے، جو بامعنی ساختی اصلاحات چاہیں وہ بھی نہیں کی جاتی ہیں۔"

ص ز/ ج ا (روئٹرز)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے بلین ڈالر مالی سال ایم ایف کی توقع توقع ہے کے لیے کیا ہے سال کے

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • کرپشن سے پاک پاکستان ہی ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے، کاشف شیخ
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو ملک سنبھل سکتا ہے، سراج الحق
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا: حافظ نعیم الرحمن
  • واٹس ایپ میں بیک-اَپ کیلئے اب کوئی پاسورڈ کی ضرور نہیں، نیا طریقہ متعارف
  • پاکستان کی آئی ایم ایف کو فاضل بجٹ کیلیے 200 ارب کے اضافی ٹیکس کی یقین دہانی
  • خیبر پختونخوا پولیس نے لیزر سسٹم سے لیس ہائی ٹیک ڈرون تیار کرلیا