Daily Ausaf:
2025-07-27@04:40:51 GMT

پٹرول اور ڈیزل پر کاربن لیوی عائد

اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT

وفاقی بجٹ 26-2025 میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر 2.5 روپے فی لیٹر کے حساب سے کاربن لیوی عائد کر دی ہے۔
فنانس بل برائے سال 26-2025 کی کاپی حاصل کر لی ہے جس کے مطابق حکومت نے پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر کاربن لیوی عائد کر دی ہے۔
فنانس بل کے مطابق حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر 2.5 روپے کاربن لیوی عائد کی ہے اس کے علاوہ فرنس آئل پر بھی ڈھائی روپے کے حساب سے 2665 روپے فی ملین ٹن کاربن لیوی عائد کر دی ہے۔
فنانس بل میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کارگو ٹریکنگ سسٹم بھی عائد کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کا خصوصی بجٹ اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر رہے ہیں، جب کہ بجٹ پیش کرنے کے دوران اپوزیشن کا احتجاج بھی جاری ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کاربن لیوی عائد

پڑھیں:

کم از کم اجرت پر عمل درآمد

صوبہ سندھ میں اعلیٰ ہنر مند افراد کی کم از کم اجرت 50ہزار 868 روپے ماہانہ مقرر کردی گئی۔ محکمہ اطلاعات کے اعلامیے کے مطابق کم از کم اجرتی بورڈ سندھ نے غیر ہنر مند محنت کشوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 40ہزار روپے، نیم ہنرمند کی کم از کم ماہانہ اجرت 41,280 روپے، ہنر مند کی کم از کم ماہانہ اجرت 48,910 روپے اور اعلیٰ ترین ہنر مند محنت کشوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 50,868 روپے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔ مذکورہ اجرتیں یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوں گی۔

کم ازکم اجرت بورڈ کے سیکریٹری محمد نعیم منگی نے اپنے بیان میں کہا کہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز 14 دن کے اندر اپنے اعتراضات متعلقہ محکمے میں جمع کروا سکتے ہیں، صوبے میں قائم تمام رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ صنعتی ادارے کم از کم ماہانہ اجرت دینے کے پابند ہوں گے۔ یہ اعلان ہر سال بجٹ کے موقع پر کیا جاتا ہے لیکن آج تک کسی بھی حکومت کی طرف سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

پاکستان میں لاکھوں ایسے مزدور، غیر ہنرمند، نیم ہنرمند اور ہنرمند افراد ہیں جو مختلف شعبوں اور اداروں میں حکومت کی جانب سے مقررہ اجرت سے کم پر کام کر رہے ہیں۔ آج بھی مزدورکو 20 سے پچیس ہزار روپے بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ گزشتہ سال 37 ہزار روپے کا اعلان ہوا تھا، مگر یہ صرف اعلان تک ہی محدود رہا ہے نوے فیصد ادارے آج بھی نوٹیفیکشن کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کروانے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مزدور بے چارہ سارا سال محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی پرانی تنخواہ پر ہی گزارا کرتا ہے، اگر مزدور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان کو جبری طور پر نوکری سے برطرف کردیا جاتا ہے یا بلیک میل کرکے مزدوروں کا خون چوستے ہیں۔ کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے مزدور حالات سے سمجھوتا کر کے صبر و شکر کرتے ہیں لیکن ان کے خواب اور ارمانوں کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔

مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مزدور طبقہ سسک سسک کر زندگی گزار رہا ہے جب کہ زندگی گزارنے کے اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس، راشن، کرایہ، ٹرانسپورٹ سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے۔ مزدور، جو پورا دن مشقت کرتا ہے، کم ازکم تین وقت کی مناسب خوراک کا حق رکھتا ہے تاکہ وہ اگلے دن بھی کام کرسکے؟نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کن مشکلات کا شکار ہیں، سب پر عیاں ہیں۔ کم تنخواہ، اضافی ذمے داریاں اور کوئی جاب سیکیورٹی بھی نہیں۔

اُس پر تمام دن کھڑے رہنا، بچوں کی ایک بڑی تعداد کی مکمل ذمے داری لینا، امتحانی نتائج، اسکول کی ساکھ پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ پڑھے لکھے باصلاحیت قابل نوجوان نسل پوسٹ گریجویٹ بھی بیروزگاری میں مبتلا ہیں یا پھر کم تنخواہوں پر 10 گھنٹے کی نوکری کر رہے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدے میں آیا ہے کہ یونیورسٹی سطح پر پڑھانے والے پوزیشن ہولڈرز کنٹریکٹ پر 25 ہزار روپے سے 40 ہزار روپے پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جب کہ انھیں دیگر مراعات سے محروم کیا ہوا ہے۔ 

دنیا میں موجود مختلف معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو شاید کارل مارکس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ کارل مارکس 5مئی 1818کو جرمنی کے شہر ٹرائیر میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ انگلینڈ میں گزارا۔ وہ ایک انتہائی قابل فلاسفر، لکھاری، ماہر معاشیات اور نظریہ ساز بنے۔ سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت اور سوشل ازم پر ان کے خیالات انتہائی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔

آج بھی دنیا کے تقریبا ہرکونے میں کارل مارکس کی طرف سے پیش کیے جانے والے خیالات پر بحث ہوتی نظر آتی ہے۔ کارل مارکس کا فلسفہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا میں موجود ورکنگ کلاس کی محرومیاں اور امتیاز صرف سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہیں اور اسی نظام کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی تقسیم اور ناانصافیاں جنم لیتی ہیں۔

کارل مارکس نے طبقاتی نظام میں مزدورکو منافع کا حق دار قرار دیا ہے، مزدور ملک کی معیشت کی مضبوطی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کارل مارکس ایک جرمن فلسفی اور ماہر معاشیات تھے جنھوں نے مزدور طبقے کے مسائل پر بہت زیادہ توجہ دی۔ ان کے مطابق، سرمایہ دارانہ نظام میں، مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ دار ان کی محنت کی اجرت سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔

مارکس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک انقلابی طریقہ کار تجویزکیا جس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہو اور پیداوارکے ذرایع پر سب کا حق ہو۔کارل مارکس اور مارکسزم کی آمد انسانیت کی تاریخ میں ایک انقلابی دور ہے۔ مارکسزم نے انسانی تاریخ کی ایک فلسفیانہ تفہیم اور انسانوں کو استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرانے اور ضروری انسانی قدروں کا ادراک کرنے کا عملی طریقہ فراہم کیا۔

اِس طرح مارکس کے نزدیک انسانیت کی خدمت کا مقصد مزدور طبقے کی خدمت قرار پایا، جو نہایت ترقی یافتہ اور اصولی طور پر انقلابی طبقہ تھا، جو خود کو اور تمام بنی نوعِ انسان کو جبر اور استحصال سے نجات دلانے کا اہل تھا۔ مارکس کو اِس بات سے پوری آگاہی تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کے طرز زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔

جب کم سے کم تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ویج بورڈزکی جانب سے اس سے متعلق نوٹی فکیشن کے اجرا میں کئی ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اسی لاپرواہی کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو کم تنخواہیں ملتی ہیں۔ غیر رسمی معیشت کا حصہ مزدور جیسے گھریلو ملازمین اور غیر ہنر مند محنت کش طبقہ مکمل طور پر اپنے نجی آجروں پر تنخواہوں کے لیے انحصارکرتا ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیے جانے کا خطرہ ہے۔

ریاست کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اصلاحات کا آغازکرے اور مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو کر پالیسی سازی میں افرادی قوت کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر دیکھے۔ تسلی بخش تنخواہوں،کام کے لیے محفوظ ماحول، ورکرز اور ان کے زیرِکفالت افراد کے لیے صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم میں مدد کے ذریعے مزدورکے وقار کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

حکومت سے اپیل ہے کہ آپ ان مزدوروں کا بھی خیال کیجیے جو اسپتالوں، اسکولوں، دکانوں اور دوسروں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔ اُن کو بھی کم از کم اجرت کے قانون میں شامل کریں اور ان اداروں کو پابندکریں کہ آپ نے اپنے پاس ملازمت کرنے والے شخص کو کم از کم تنخواہ جو مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور کم ازکم اجرت کے قانون کے مطابق حکومت طے کرے گی، وہ ادا کرنے کے مجاز ہوں گے، ورنہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

پاکستان میں مختلف قوانین ہیں اور 1961 سے کم ازکم اجرت کے قانون کے تحت تمام صوبوں میں ویج بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور تمام صوبوں میں کم ازکم اجرت کے حوالے سے ویج بورڈ موجود ہیں۔ 2010 کی آئینی ترمیم کے بعد تمام صوبوں کے اپنے کم ازکم اجرت سے متعلق قوانین بھی موجود ہیں۔

قانون کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی کنونشن کے تحت ویج بورڈ اور دیگر قوانین کی پاسداری کرنے کا پابند ہے۔ کم ازکم اجرت عائد کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آجروں کو اپنے ملازمین کو کم ازکم اجرت دینے پر پابندکیا جائے۔ کم ازکم اجرت کے قانون پر عمل درآمد نہیں ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک میں لیبر قوانین کے متعلق کم آگاہی ہے اور میڈیا میں بھی کم ازکم اجرت کی سب سے کم سطح کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ادارے اس ہی کو معیار سمجھ لیتے ہیں۔ لیبر قوانین پر عمل داری سب سے کمزور ہے۔ حکومت لیبر قوانین پر بھرپور توجہ نہیں دے رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سی پیک توانائی منصوبوں کے بقایاجات 423 ارب تک محدود
  • کم از کم اجرت پر عمل درآمد
  • ن لیگ کی حکومت نے مفتاح اسماعیل کا اربوں روپے کا سکینڈل بنایا تو انہوں نے بھی اسحاق ڈار کے خاندان کو نشانے پر رکھ لیا، اِشارہ دیا کہ   کرپٹو کرنسی میں 100ملین ڈالرکا نقصان ہوا ہے، اگر یہ لڑائی بڑھی تو اور کئی پول کھل سکتےہیں، عثمان شامی 
  • کراچی کی تمام شاہراہوں پر پارکنگ فیس لینے پر پابندی عائد، نوٹیفکیشن جاری
  • وزیرا عظم شہباز شریف یوم آزادی کے موقع پر الیکٹرک بائیکس اسکیم کا افتتاح کریں گے
  • سرکاری محکموں میں گریڈ 5 سے 15 کی بھرتیوں پر عائد پابندی کے معاملے پر سماعت کیلئے تاریخ مقرر
  • امریکا جانے والے غیر ملکیوں پر 250 ڈالر کی اضافی ویزا فیس عائد
  • فواد خان کیساتھ فلم عبیر گلال کی ریلیز پر پابندی، وانی کپور نے خاموشی توڑ دی
  • ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان