کینیڈا کیجانب سے امریکا کے حوالے کیا جانے والا پاکستانی شہری کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
امریکی حکام کے مطابق ایک پاکستانی شہری محمد شاہزیب خان کو دہشتگردی کے الزامات کے تحت کینیڈا سے امریکا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ شاہزیب خان، جس کی عمر 20 سال ہے، پر الزام ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم داعش سے متاثر ہو کر نیویارک میں یہودی عبادت گاہ پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:کیا کینیڈا امریکا کی 51ویں ریاست بن سکتا ہے؟
شاہزیب خان کو ستمبر 2024 میں کینیڈا کے علاقے کیوبک کے نزدیک امریکی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
حکام کے مطابق اس کے پاس نقد رقم موجود تھی جو کہ مبینہ طور پر ایک اسمگلر کو دی جانی تھی تاکہ وہ امریکا میں داخل ہو سکے۔ وہ امریکی خفیہ ایجنٹس سے مسلسل رابطے میں تھا اور ان کے ساتھ حملے کی تیاری، ہتھیاروں کی خریداری اور ممکنہ ٹارگٹ پر گفتگو کرتا رہا۔
محکمہ انصاف کے مطابق ملزم نے خاص طور پر 7 اکتوبر، جو حماس کے حملے کی سالگرہ تھی، اور 11 اکتوبر (یومِ کِپور) کو حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
امریکی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے اس کارروائی کو کینیڈا اور امریکا کے درمیان انسدادِ دہشتگردی تعاون کی کامیاب مثال قرار دیا اور کہا کہ وہ اب امریکی عدالت کا سامنا کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کی ایک اور سبکی، کینیڈا کی جی 7 سربراہی میٹنگ سے مودی مائنس
اگر عدالت نے الزامات ثابت کر دیے تو شاہزیب خان کو 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
پس منظرمحمد شاہزیب خان 2023 میں طالبعلم کے طور پر کینیڈا آیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، وہ کچھ ہی عرصے بعد آن لائن شدت پسند مواد شیئر کرنے لگا۔
کینیڈین اور امریکی حکام نے مشترکہ نگرانی کے بعد اسے ستمبر 2024 میں حراست میں لیا۔ اب وہ نیویارک میں مقدمے کا سامنا کرے گا، جہاں اس پر دہشتگرد تنظیم کی مدد کرنے اور بڑے پیمانے پر حملے کی سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پاکستانی شہری دہشتگردی کینیڈا یہودی مرکز یوم کپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پاکستانی شہری دہشتگردی کینیڈا یہودی مرکز یوم کپور شاہزیب خان کے مطابق حملے کی
پڑھیں:
امریکا اور برطانیہ کے ’جوہری معاہدے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟
برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اربوں پاؤنڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک میں جدید جوہری توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق یہ معاہدہ "اٹلانٹک پارٹنرشپ فار ایڈوانسڈ نیوکلیئر انرجی" کے نام سے جانا جا رہا ہے جس کا مقصد نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کو تیز کرنا اور توانائی کے بڑے صارف شعبوں، خصوصاً مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز، کو کم کاربن اور قابلِ بھروسہ بجلی فراہم کرنا ہے۔
اس معاہدے کے تحت برطانیہ کی سب سے بڑی توانائی کمپنی ’سینٹریکا‘ کے ساتھ امریکی ادارے ایکس انرجی مل کر شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر ہارٹلی پول میں 12 جدید ماڈیولر ری ایکٹرز تعمیر کرے گی۔
یہ منصوبہ 15 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے اور 2,500 ملازمتیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی ہولٹیک، فرانسیسی ادارہ ای ڈی ایف انرجی اور برطانوی سرمایہ کاری فرم ٹریٹیکس مشترکہ طور پر نوٹنگھم شائر میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز (SMRs) سے چلنے والے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے۔
اس منصوبے کی مالیت تقریباً 11 ارب پاؤنڈ (15 ارب ڈالر) بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، برطانوی رولز رائس اور امریکی بی ڈبلیو ایکس ٹی کے درمیان جاری تعاون کو بھی مزید وسعت دی جائے گی۔
برطانیہ کے پرانے جوہری پلانٹس فی الحال برطانیہ میں 8 جوہری پاور اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 5 بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ 3 بند ہوچکے ہیں اور ڈی کمیشننگ کے مرحلے میں ہیں۔
یہ زیادہ تر 1960 اور 1980 کی دہائی میں تعمیر ہوئے تھے اور اب اپنی مدتِ کار کے اختتامی مرحلے پر ہیں۔ موجودہ توانائی صورتحال برطانیہ اپنی بجلی کا تقریباً 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 25 فیصد سے زائد تھی۔
خیال رہے کہ 2024 میں پہلی مرتبہ ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی (ونڈ پاور) نے ملک کا سب سے بڑا بجلی کا ذریعہ بن کر گیس سے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کُل بجلی کا تقریباً 30 فیصد ہے۔
امریکا کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف امریکی جوہری ٹیکنالوجی کی برآمدات کو بڑھائے گا بلکہ برطانوی اور امریکی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پورے پروگرام سے 40 ارب پاؤنڈ (54 ارب ڈالر) کی معاشی قدر پیدا ہونے کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں ایڈوانسڈ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مانگ 2050 تک تیزی سے بڑھنے کی توقع ہے۔
امریکا میں بھی جوہری توانائی کی طلب 100 گیگا واٹ سے بڑھ کر 400 گیگا واٹ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ نے ملک کی جوہری پیداواری صلاحیت کو چار گنا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
عالمی اوسط کے مطابق ایک جوہری ری ایکٹر کی تعمیر میں تقریباً 7 سال لگتے ہیں تاہم چین میں یہ مدت پانچ سے چھ سال ہے جبکہ جاپان نے ماضی میں کچھ ری ایکٹرز صرف تین سے چار سال میں مکمل کیے تھے۔