مغربی کنارے میں معصوم فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسندانہ تشدد کو ہوا دینے پر دو اسرائیلی وزرا کو مختلف ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دو انتہاپسند اسرائیلی وزرا ایتمار بین گویر اور بیزالیل سموٹریچ کے اثاثے منجمد اور سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

اسرائیلی وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے وزیر پر یہ پابندیاں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کیخلاف انتہا پسندی کو ہوا دینے پر عائد کی ہیں۔

ان پانچوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بین گویر اور سموٹریچ نے فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسندانہ تشدد پر اکسایا اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وزرا کی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے جبری بیدخلی اور نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی حمایت کرنے والی انتہا پسندانہ بیان بازی خوفناک اور خطرناک ہے۔

خیال رہے کہ پابندی عائد کرنے والے یہ ممالک اسرائیل کے حلیف ممالک رہے ہیں اور نیتن یاہو کی حکومت کے لیے ہمدردیاں رکھنے کے باوجود اسرائیلی وزرا کی انتہاپسندی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

ان ممالک نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسیوں اور یہودی آباد کاروں کے فلسطینیوں پر تشدد کی شدید سرزنش بھی کی تھی۔

پابندی کے شکار اسرائیلی وزرا نے پابندی کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھا کہ انھیں پتہ چلا کہ برطانیہ نے فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے پر ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے فرعون پر قابو پایا تھا، ہم اسٹارمر کی دیوار بھی پار کرلیں گے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اس اقدام کو "اشتعال انگیز" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو سے بات ہوئی ہے وہ اس پر اگلے ہفتے ملاقات کریں گے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی مغربی کنارے میں تشدد میں ملوث بنیاد پرست اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کے ساتھ مغربی کنارے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزرا

پڑھیں:

غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ

اپنے ایک انٹرویو میں ھاکان فیدان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے NTV کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات کی تازہ صورتحال پر بات کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران تین اہم معاملات پر گفتگو رک گئی ہے۔ کیونکہ حماس چاہتی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد تقسیم کی جائے لیکن اسرائیل اس بات پر راضی نہیں۔ ایک اور اختلافی نکتہ، اسرائیلی فوج کے غزہ پٹی سے کب اور کیسے پیچھے ہٹنے کے معاملے پر ہے۔ ھاکان فیدان کے مطابق، حماس یہ بھی چاہتی ہے کہ اسرائیل تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی جنگ بندی پر عمل کرنے کا تحریری عہد کرے، لیکن تل ابیب نے اب تک اس شرط کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے غزہ میں انسانی المیے کی شدت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے نہ صرف غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ وہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مار رہا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے بغیر غزہ نامی منصوبے پر خبردار  کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکار مختلف ممالک کا دورہ کر کے دنیا کو بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کے خلاف ہیں اور متعلقہ ممالک کو خبردار کر چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگبندی کے مذاکرات میں 3 اہم رکاوٹیں موجود ہیں، ترکیہ
  • غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
  • فلسطینی مغربی کنارے کا الحاق غیر قانونی، عالمی برادری اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے: پاکستان
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • اسرائیل کا متنازع اقدام: پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • کینیڈا کا فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ
  • اسرائیلی پارلیمنٹ کی مقبوضہ مغربی کنارے پر خود مختاری کی کوشش پر پاکستان کی شدید مذمت
  • اسرائیل کا ایک اور متنازع قدم، پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • مغربی کنارے کا الحاق غیر قانونی، عالمی برادری اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے: پاکستان
  • مقبوضہ مغربی کنارے کے غیرقانونی الحاق کی اسرائیلی کوشش، پاکستان کی شدید مذمت