کراچی:

لیاری میں ہونے والے عمارت کے حادثے کی تحقیقات کے لیے پولیس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے دفتر پہنچ گئی اور مختتلف عمارتوں کا ریکارڈ طلب کیا گیا اور مختلف افسران کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ لیاری عمارت گرنے کے واقعے پر پولیس کی جانب سے تحقیقات کی جا رہی ہے، اسی سلسلے میں ضلع جنوبی کے ڈی ایس پی، ایس ایچ او پولیس کے ہمراہ ایس بی سی اے کے مرکزی دفتر پہنچے، پولیس ڈائریکٹر ایڈمن سے ملاقات کی اور ضلع جنوبی میں مختلف عمارتوں کا ریکارڈ طلب کیا گیا، جس پر ڈائریکٹر ایڈمن نےیقین دہانی کرائی کہ جو ریکارڈ درکار ہوگا وہ فراہم کیاجا ئے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس کے پہنچنے پر کئی افسران غیر حاضر تھے اس واقعے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں مزید 5 افسران اور مالک  مفرور ہے، جن کی گرفتاری کے لیے پولیس کی جانب سے چھاپہ مار کارروائیاں جا ری ہیں۔

پولیس نے اس قبل جمعرات کو 9 اہم افسران  کو گرفتار کیا تھا، گرفتار ملزمان میں 6 ڈائریکٹرز، دو ڈپٹی ڈائریکٹرز، ایک انسپکٹر کو گرفتار کیا گیا تھا، ان میں گرفتار ریٹائر ڈائریکٹر آصف رضوی کی طبیعت ناساز ہوگئی تھی جس پرپولیس نے گھر منتقل کردیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

لیاری عمارت حادثہ؛ عدالت نے نامزد ملزمان کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا

کراچی:

جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی نے لیاری بغدادی میں عمارت گرنے سے 27 افراد کے جاں بحق ہونے کے مقدمے میں ایس بی سی اے کے 5 ڈائریکٹر، 2 ڈی ڈی، ایک انسپکٹر اور عمارت کے مالک کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کلثوم سہتو کی عدالت کے روبرو لیاری بغدادی میں عمارت گرنے سے 27 افراد کے جاں بحق ہونے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ پولیس نے گرفتار ایس بی سی اے افسران کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔ گرفتار ملزمان میں 5 ڈائریکٹر، 2 ڈی ڈی، ایک انسپکٹر اور عمارت کا مالک شامل ہیں۔ 

عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کتنے مقدمے ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایک مقدمہ ہے۔ بلڈنگ گرنے کے بعد ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔ پولیس نے عدالت سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کردی۔

تفتیشی انسپکٹر زاہد حسین نے کہا کہ ملزمان سے تفتیش کےلیے زیادہ سے زیادہ ریمانڈ دیا جائے۔ ملزمان کے پاس تمام دستاویزی ریکارڈ ہے۔ ملزمان سے ریکارڈ حاصل کرنا ہے۔ ملزمان کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے 27 افراد جاں بحق اور 4 افراد زخمی ہوئے۔

عدالت نے مالک کو آگے بلایا۔ جس پر وکیل صفائی ذیشان راجپر نے موقف دیا کہ حادثے میں رحیم بخش کا بیٹا اور داماد سمیت 5 افراد فوت ہوئے وہ تو خود متاثرہ فریق ہے۔

شہاب سرکی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ 27 لوگوں کی جان گئی ہمیں افسوس ہے۔ کیس یہ ہے کہ بلڈنگ 1986 میں بنی جس کا ریکارڈ ایس بی سی اے کے پاس ہے۔ اس ریکارڈ میں تمام چیزوں کا بتایا گیا ہے یہ کام کس کا ہے۔ گرفتار کرنے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بلڈنگ بنانے کی اجازت کس افسر نے دی۔ کمپلیشن لیٹر کس نے جاری کیا، اپروول کس نے دیا۔ بلڈنگ کو پہلے ہی خطرناک قرار دیا جاچکا تھا۔

بلڈنگ کا نقشہ کس نے پاس کیا اس کا بھی تعین کیا جائے۔ یہ کیس ڈاکومنٹڈ ہے، لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ریکارڈ کو سامنے لانے میں وزیر صاحب کو کیا مسئلہ ہے۔ کمپلیشن پلان کس نے دیا، ہمارا تو واسطہ نہیں۔ آپ لوگ مقدمہ کریں لیکن تفتیش تو ٹھیک کریں۔

بنیادی چیز یہ ہے کہ وزرا کے دباؤ پر 3 دن بعد ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کو حراست میں لے کر چھوڑ بھی دیا گیا۔ مقدمے میں کسی بھی وزیر کو نامزد تک نہیں کیا گیا۔ ان لوگوں نے کوئی لاش ریکور کروانی ہے جو ریمانڈ مانگ رہے ہیں۔ تفتیش کے بغیر گرفتاری غیر قانونی ہے۔ یہ 14 دن کے بجائے 30 دن کے ریمانڈ میں کیا ثابت کردیں گے۔ جس بلڈنگ کا وکیل سرکار ذکر کررہے ہیں وہ ساتھ والی ہے۔

ایس بی سی اے کے افسران نے کہا کہ ہماری تو اس علاقے میں پوسٹنگ نہیں تو پھر بھی ہمارا نام ڈال دیا گیا۔ جی ایم قریشی ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ استغاثہ نے ریمانڈ پیپر پر لکھا ہے کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ صوبائی وزیر کی پریس کانفرنس کے بعد لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ لوگوں کو گرفتار کرکے چھوڑ دیا گیا۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ بلڈنگ کا ذمے دار ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے ہے۔ پولیس ریکارڈ حاصل کرنا چاہتی ہے تو کرلے، اسے کون روک سکتا ہے۔

ذیشان راجپر ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ مالک کی نواسی اور پوتی اس حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو یہ اپنے لوگوں کو اس بلڈنگ میں کیوں رکھتے۔ رحیم بخش پر کوئی ٹائٹل ڈاکومنٹس موجود نہیں۔ تمام دفعات قابل ضمانت ہیں اور 322 اس میں بنتی نہیں۔

جاوید چھتاری ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ اس مقدمے میں نامزد ملزمان کی ذمے داری نہیں بنتی۔ تفتیشی افسر کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 50 سال پہلے بلڈنگ بنی تھی، کس افسر نے اس کی اجازت دی، کسی کو نہیں پتہ۔ یہ صرف ہراساں کررہے ہیں، کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یہ کیس ہی نہیں بنتا۔ کم ازکم ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ عدالت نے ملزمان کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
 

متعلقہ مضامین

  • لیاری عمارت حادثہ، نامزد ملزمان 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
  • لیاری عمارت حادثہ؛ عدالت نے نامزد ملزمان کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا
  • لیاری عمارت حادثہ کی تحقیقات میں اہم پیشرفت، 8 افسران اور مالک گرفتار، مقدمہ قتلِ خطا کے تحت درج
  • لیاری میں گرنے والی عمارت کا مقدمہ درج، ایک ڈائریکٹر کے علاوہ تمام ملزمان گرفتار
  • سندھ بلڈنگ کے مرکزی دفتر پر چھاپا، 9 افسران زیر حراست
  • لیاری عمارت حادثہ: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 9 افسران زیر حراست
  • لیاری میں عمارت گرنے کا واقعہ: ایس بی سی اے کے دفتر پر چھاپہ، 6 افسران زیر حراست
  • ایس بی سی اے کے دفتر پر چھاپہ، کون کون سے 9 افسران گرفتار؟
  • کراچی: ایس بی سی اے دفتر پر سادہ لباس اہلکاروں کا چھاپہ، 6 افسران زیرِ حراست