کراچی کی مردم شماری میں شہری آبادی کی شمولیت وکلاء کی جدوجہد کا ثمر ہے، خالد مقبول صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
چیئرمین ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 140-A کے تحت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں جیت چکے ہیں، مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جس پر اب توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کرنے یا دیگر قانونی راستے اختیار کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکز بہادرآباد سے متصل پارک میں چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیرِ صدارت لیگل ایڈ کمیٹی اور لائرز فورم کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں آئندہ کی قانونی حکمتِ عملی، مردم شماری میں شہری علاقوں کی نمائندگی، لاپتا افراد، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور آئینی حقوق کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، انیس احمد قائم خانی، سید امین الحق، مرکزی رہنما سید شاکر علی، اراکین قومی اسمبلی، ایڈووکیٹ صوفیہ سعید، ایڈووکیٹ حسان صابر، حفیظ الدین ایڈووکیٹ، لیگل ایڈ کمیٹی کے مرکزی انچارج محمد جیوانی و اراکین، لائرز فورم کے انچارج سعید اختر و اراکین بھی شریک تھے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وکلاء کی کاوشوں سے کراچی کے شہری علاقوں کی دو کروڑ آبادی کو مردم شماری میں شامل کرانے میں کامیابی ملی اور اب ہماری کوشش ہے کہ آئندہ مردم شماری پانچ سال بعد ہو تاکہ باقی رہ جانے والے افراد کو بھی سرکاری ریکارڈ میں شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ اب بھی موجود ہے اور ہمیں قانونی نکات پر بیٹھ کر مشاورت کرنی ہے تاکہ ان افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جا سکے۔ چیئرمین ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 140-A کے تحت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں جیت چکے ہیں، مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جس پر اب توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کرنے یا دیگر قانونی راستے اختیار کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں عدالتی اور قانونی نظام میں مقامی وکلاء کی مؤثر نمائندگی کا فقدان ہے، جسے دور کرنے کے لیے وکلاء کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ اس وقت ملک اور بالخصوص شہری سندھ کو ایک منظم، مربوط اور آئینی قانونی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنان برسوں سے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں، اور ان کے مقدمات میں قانونی معاونت کے لیے سینئر وکلاء کی مدد ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خود ایک قانونی و آئینی جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، اور آج جب شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں تو ہمیں بھی ایک نئی آئینی جنگ کا آغاز کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خالد مقبول نے کہا کہ وکلاء کی کیا جا
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025 عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
لاہور:پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اعجاز شفیع کے مطابق پارٹی بروز پیر ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرے گی۔ اس حوالے سے نمائندگی شیخ امتیاز محمود، اعجاز شفیع، منیر احمد اور میاں شبیر اسماعیل کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے جو صدر، وزیراعظم، گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی ہے۔
اعجاز شفیع نے بتایا کہ قانونی ماہرین کی مدد سے تیار کردہ تفصیلی اعتراضات حکومت کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب لوکل گورنمنٹ بل کی متعدد شقیں آئین پاکستان کے آرٹیکلز 17، 32 اور 140-اے سے متصادم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر جماعتی، ایک ووٹ ملٹی ممبر یونین کونسل ماڈل پر شدید تحفظات ہیں، کیونکہ یہ سیاسی جماعتوں کے کردار کو کمزور کرتا ہے اور بلدیاتی اداروں کی خودمختاری کو متاثر کرتا ہے۔
اعتراضات کے متن میں کہا گیا ہے کہ بل کے تحت مقامی نمائندوں کی جگہ انتظامی افسران کو کنٹرول دینا اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے اصول کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ مالیاتی اختیارات کا مرکزیت کی طرف منتقل ہونا بلدیاتی خودمختاری کو کمزور کرے گا۔ غیر معینہ مدت تک ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا اختیار بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ یونین کونسل چیئرمین کے براہ راست انتخاب کی بحالی کی جائے، بلدیاتی اداروں کی پانچ سالہ مدت آئینی طور پر طے کی جائے اور واضح انتخابی شیڈول جاری کیا جائے۔ ساتھ ہی ایگزیکٹو مداخلت اور ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
اعجاز شفیع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں بروز پیر اعلامیہ اور حکمِ امتناع کی درخواست دائر کی جائے گی، جس میں متنازع شقوں پر عملدرآمد روکنے اور بلدیاتی جمہوریت کے تحفظ کی استدعا کی جائے گی۔