وزیراعلیٰ پنجاب سے امریکی ناظم الامور اور قونصل جنرل کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (نمائندہ جسارت) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازسے امریکی ناظم الامور نٹالی اے بیکر اور امریکی قونصل جنرل لاہور کرسٹن کے ہاکنز نے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ نے امریکی ناظم الامور اور قونصل جنرل کا خیر مقدم کیا۔ مریم نواز نے نٹالی بیکر کے بطور ناظم الامور پاکستان میں متحرک اور مثبت کردار کو سراہا۔ ملاقات میں پاک امریکا دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں امریکا کے تعمیری اور مثبت کردار کو سراہا۔ انہوں نے پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کی حمایت پر نٹالی بیکر کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعلیٰ نے سسٹر اسٹیٹ ہونے کے ناطے کیلیفورنیا کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے امریکی کانگریشنل پاکستان کاکس کے ساتھ ملاقات کو مثبت اور تعمیری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے امریکا کا فعال کردار نہایت اہم ہے۔ پاکستان اور امریکا تعلقات مشترکہ اقدار اور اسٹرٹیجک مفادات پر قائم قابل قدر شراکت داری ہے۔ پنجاب اور کیلیفورنیا کے درمیان تعلقات مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ پاکستان ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں میں امریکا کیلیے اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر ابھر رہا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا اور معاشی طور پر فعال صوبہ ہے امریکی سرمایہ کاری اور تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے مضبوط پل کی مانند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غذائی تحفظ اور پائیدار ترقی جیسے چیلنجز پر امریکا کو اہم عالمی شراکت دار سمجھتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کو پہلے وویمن ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ناظم الامور انہوں نے
پڑھیں:
غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔