لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جون ۔2025 )امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں دونوں ممالک ایک ایسے فریم ورک پر متفق ہوگئے ہیں جس کا مقصد برآمدی پابندیوں میں نرمی لانا اور باہمی ٹیرف جنگ بندی کو برقرار رکھنا ہے رپورٹ کے مطابق امریکی اور چینی حکام نے کہا کہ وہ ایک فریم ورک پر متفق ہوگئے ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ بندی کو دوبارہ درست سمت میں لانا اور بیجنگ کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمدات پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ہے تاہم دیرینہ تجارتی اختلافات کے مستقل حل کے حوالے سے کوئی واضح اشارہ نہیں دیا گیا.

(جاری ہے)

لندن میں دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فریم ورک معاہدہ جنیوا میں گزشتہ ماہ طے پانے والے سمجھوتے کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ٹیرف میں نرمی لانا تھا کیونکہ یہ شرحیں تین ہندسوں تک پہنچ چکی تھیں اور تباہ کن حد اختیار کرگئی تھیں تاہم جنیوا معاہدہ اس وقت کمزور پڑگیا جب چین نے نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیاں برقرار رکھیں اس کے ردعمل میں ٹرمپ انتظامیہ نے بھی چین پر برآمدی کنٹرولز نافذ کردیے جن کے تحت سیمی کنڈیکٹر ڈیزائن سافٹ ویئر، ہوائی جہازوں اور دیگر مصنوعات کی برآمد روک دی گئی.

لٹنک نے کہا کہ لندن میں طے پانے والے معاہدے کے تحت امریکا کی جانب سے حالیہ کچھ برآمدی پابندیاں ختم کی جائیں گی لیکن مذاکرات کے اختتام پر انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں انہوں نے کہا کہ ہم نے جنیوا معاہدے اور دونوں صدور کی گفتگو پر عملدرآمد کے لیے ایک فریم ورک پر اتفاق کرلیا ہے. لٹنک کے مطابق خیال یہ ہے کہ ہم واپس جاکر صدر ٹرمپ سے بات کریں گے تاکہ وہ اس کی منظوری دیںجب کہ چینی حکام صدر شی جن پنگ سے بات کریں گے تاکہ وہ اس کی توثیق کریں اور اگر یہ منظوری دے دی گئی تو ہم اس فریم ورک پر عملدرآمد شروع کریں گے.

چین کے نائب وزیر تجارت لی چنگ گینگ نے ایک علیحدہ بریفنگ میں بتایا کہ ایک تجارتی فریم ورک اصولی طور پر طے پاچکا ہے جسے اب امریکی اور چینی قیادت کے سامنے پیش کیا جائے گا یہ معاہدہ شاید جنیوا سمجھوتے کو برآمدی پابندیوں کی جنگ سے بچالے مگر یہ ٹرمپ کی یکطرفہ ٹیرف پالیسی اور چین کے ریاستی سرپرستی میں چلنے والے برآمدات پر مبنی معاشی ماڈل پر امریکا کے دیرینہ اعتراضات جیسے بڑے اختلافات کو حل کرنے میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوگا واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر کے سینئر ڈائریکٹر جوش لپسکی کے مطابق جنیوا سے واپسی پر دونوں فریقین معاہدے کی شرائط کے حوالے سے بنیادی طور پر مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے اور ان کے لیے ضروری اقدامات پر زیادہ وضاحت درکار تھی.

انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ نقطہ آغاز پر آگئے ہیں لیکن یہ صفر سے بہتر ہے دونوں فریقین کے پاس 10 اگست تک وقت ہے کہ وہ تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک جامع معاہدہ طے کرلیں ورنہ ٹیرف کی شرح امریکی جانب سے تقریباً 30 فیصد سے بڑھ کر 145 فیصد اور چین کی جانب سے 10 فیصد سے بڑھ کر 125 فیصد ہوجائے گی ماضی میں تجارتی کشیدگی سے شدید متاثر ہونے والے سرمایہ کاروں نے محتاط ردعمل ظاہر کیا ایم ایس سی آئی کا جاپان کے علاوہ ایشیا پیسیفک کے حصص کا وسیع ترین انڈیکس 0.57 فیصد بڑھ گیا.

ہاورڈ لٹنک نے کہا کہ چین کی جانب سے امریکا کو نایاب زمینی معدنیات اور میگنیٹس کی برآمدات پر عائد پابندیاں فریم ورک معاہدے کا بنیادی حصہ ہوتے ہوئے حل کر دی جائیں گی ان کا کہنا تھا کہ جب یہ نایاب معدنیات نہیں آرہی تھیں تو امریکا نے بھی کئی اقدامات کیے تھے جو اب شاید متوازن طریقے سے ختم کر دیے جائیں گے. صدر ٹرمپ کی بدلتی ہوئی ٹیرف پالیسیوں نے عالمی منڈیوں کو شدید متاثر کیا ہے جس سے بڑی بندرگاہوں پر رکاوٹیں اور الجھنیں پیدا ہوئیں اور کمپنیوں کو یا تو فروخت میں کمی یا لاگت میں اضافے کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا عالمی بینک نے 2025 کے لیے عالمی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی میں چار دسویں پوائنٹس کی کمی کرتے ہوئے اسے 2.3 فیصد کردیا اور کہا کہ زیادہ ٹیرف اور غیر یقینی صورتحال تقریباً تمام معیشتوں کے لیے رکاوٹ بن چکی ہے یورپی مرکزی بینک کی صدر کرسٹین لاگارڈ نے بدھ کو بیجنگ کے غیر معمولی دورے کے دوران کہا کہ تجارتی جنگ کا حل ممکنہ طور پر تمام ممالک کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلی کا تقاضا کرے گا تاکہ مالی عدم توازن کو دور کیا جاسکے، ورنہ باہمی معاشی نقصان کا بڑا خطرہ موجود ہے.

امریکا اور چین کے درمیان مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو پچھلے ہفتے صدر ٹرمپ اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ایک غیر معمولی فون کال سے تقویت ملی جسے ہاورڈ لٹنک نے راہنمائی فراہم کرنے والا قرار دیا اور اسے جنیوا کے جنگ بندی معاہدے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہفتے کے آغاز پر شائع ہونے والے کسٹمز ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ مئی میں چین کی امریکا کو برآمدات میں 34.5 فیصد کمی ہوئی جو کووڈ وبا کے آغاز کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے اگرچہ اس کے اثرات امریکی افراطِ زر اور روزگار کی منڈی پر فی الحال محدود ہیں لیکن ٹیرف نے امریکی کاروباری اداروں اور صارفین کے اعتماد کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اور ڈالر مسلسل دباﺅ میں ہے.

لندن مذاکرات میں لٹنک کے ہمراہ امریکی تجارتی نمائندہ جیمی سن گریئر اور وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ بھی شریک تھے جو مذاکرات کے اختتام سے چند گھنٹے قبل واشنگٹن روانہ ہوگئے تاکہ بدھ کو کانگریس میں گواہی دے سکیں چین کو نایاب زمینی میگنیٹس پر تقریباً اجارہ داری حاصل ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کے موٹرز میں کلیدی جزو ہیں اپریل میں چین نے مختلف اہم معدنیات اور میگنیٹس کی برآمدات معطل کیں جس سے عالمی سپلائی چین بری طرح متاثر ہوئی.

امریکا نے مئی میں جواب دیتے ہوئے سیمی کنڈیکٹر ڈیزائن سافٹ ویئر، کیمیکل اور ہوابازی کے آلات کی برآمدات روک دیں اور جاری ایکسپورٹ لائسنس منسوخ کردیے منگل کو جاری دستاویزات کے مطابق چین، میکسیکو، یورپی یونین، جاپان، کینیڈا اور دنیا بھر کی کئی ایئرلائنز اور ایرو اسپیس کمپنیاں ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کرچکی ہیں کہ درآمد شدہ کمرشل طیاروں اور ان کے پرزہ جات پر قومی سلامتی کے نئے ٹیرف نہ لگائے جائیں. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تجارتی کشیدگی دونوں ممالک برآمدات پر مذاکرات کے کی برآمدات اور چین کے کی جانب سے کے درمیان نے کہا کہ کے مطابق لٹنک نے کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-2

 

پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت نگرانی اور تصدیق کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا اور ٹھیرایا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، اسلام میں ہمسایوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں، قرآن حکیم اور رسول اکرم نے مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے لیے کسی بھی صورت پریشانی اور تکلیف کا باعث نہ بننے کی ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ پاکستان میں آئے روز کی دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوںملکوں کے مابین کشیدگی آخر باقاعدہ جنگ تک جا پہنچی حالانکہ مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کی سورۂ انفال کی آیت 46 میں باہم لڑائی اور جھگڑوں سے ہر صورت دور رہیں کیونکہ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے کمزوری کا سبب ہو گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اس دو ٹوک حکم کے باوجود اگر مسلمان آپس میں برسر پیکار ہو ہی جائیں تب بھی خالق کائنات نے سورۂ الحجرات کی آیت 9 میں ہدایت فرمائی ہے کہ:۔ ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ مقام شکر ہے کہ اسی حکم قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ترکیہ اور قطر نے پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی میز پربٹھایا۔ دونوں میں 18 اور 19 اکتوبر کے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آگئی۔ جسے ’دوحا معاہدہ‘ کا نام دیا گیا جنگ بندی کی شرائط اور وعدوں پر عمل درآمد کو ٹھوس شکل دینے کے لیے فریقین میں ترکیہ کی میزبانی میں 25 اکتوبر سے استنبول میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ چار روز تک مذاکرات کا عمل جاری رہا مگر فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور بدھ کے روز پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات نے مذاکرات کی ناکامی کا باضابطہ اعلان کر دیا تاہم ثالث ممالک ترکیہ اور قطر نے فریقین کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور جمعرات تیس اکتوبر کو مذاکرات سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 25 سے 30 اکتوبر تک جاری رہنے والے مذاکرات کا مقصد دوحا مذاکرات میں طے پانے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکا جائے اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں، یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر ایک روز قبل صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا، تاہم میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے، جنگ بندی کے نفاذ کی مزید تفصیلات اور طریقہ کار 6 نومبر 2025ء کو استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے کیے جائیں گے، جنگ بندی پر رضا مندی اس بات سے مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کریںگے۔ اعلامیہ کے مطابق تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا، جو امن کی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھیرائے گا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ بطور ثالث، ترکیہ اور قطر دونوں فریقوں کی فعال شرکت کی قدر کرتے ہیں اور دائمی امن اور استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کروانے اور اس کے تسلسل پر فریقین کو متفق کرنے میں ثالث اور میزبان ممالک کا کردار یقینا قابل ستائش ہے اگرچہ بعض دیگر مسلمان ممالک بھی اس تنازع کو طے کرانے اور جنگ کو پھیلنے سے روکنے میں پس پردہ خاصے متحرک رہے اور برسر جنگ برادر ملکوں پاکستان اور افغانستان کو باہم مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر آمادہ کرنے میں موثر اور فعال کردار ادا کیا تاہم ترکی اور قطر کے مذاکراتی وفود نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان تھک اور شب و روز محنت کی ہے جس کا اعتراف کیا جانا ضروری بھی ہے اور مذاکرات کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں فراخدلی سے یہ اعتراف کیا بھی گیا ہے توقع رکھنا چاہیے کہ ان کی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور امت مسلمہ اور دونوں مسلم ممالک کے بدخواہوں کو خوش ہونے کا موقع دینے کے بجائے جنگ بندی کو مزید مستحکم بنایا جائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے برادر عوام امن اور دوستی کی فضا میں ترقی و خوش حالی کی جانب سفر جاری رکھ سکیں اور ماضی کی طرح اس سفر میں دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے اندرونی استحکام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو معاملات بگاڑنے کا موقع نہ دیں۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی سطح پر امن کا علم بردار رہا ہے خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات اس کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ افغانستان سے کشیدگی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں ملک آمادہ جنگ ہو گئے امید ہے کہ اب دوبارہ حالات کو اس رخ پر جانے سے ہر صورت روکا جائے گا جس کا نتیجہ تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • ٹام کروز اور آنا دے آرمس کی علیحدگی کے بعد بھی دوستی برقرار
  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہونا خوش آئند اقدام ہے، حنیف طیب