بھیک تو سبھی مانگتے ہیں، ہمیں مجرم کیوں ٹھہرے
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
وفاقی وزیر مذہبی امور نے انکشاف کیا ہے کہ چالیس ہزار زائرین عراق ، شام ، ایران جا کر کہاں غائب ہو گئے معلوم نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر زائرین عراق جا کر بھیک مانگنے میں ملوث ہیں ۔ ڈائریکٹر امیگریشن اسلام آباد نے بتایا ہے کہ 66خواتین اور ان کے بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو بغداد میں بھیک مانگنے میں ملوث ہیں ۔
ان خواتین اور بچوں کا تعلق شکار پور اور جنوبی پنجاب کے پانچ بڑے شہروں سے ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ فیملی کے مرد اپنی خواتین اور بچوں کو چھوڑ کر واپس آجاتے ہیں جو وہاں بھیک مانگتے ہیں ۔ مزید یہ کہ غیر قانونی تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق منڈی بہاؤالدین ، گوجرانوالہ ، گجرات ، حافظ آباد ، وزیر آباد ، شیخوپورہ اور پارہ چنار سے ہے۔ ان لوگوں سے ایجنٹ بڑی رقوم لے کر انھیں زیارت ویزہ کے ذریعے ایران بھیجتے ہیں اور عراق میں ان کے غیر قانونی داخلے کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں ۔ عراقی حکام نے اس صورت حال پر حکومت پاکستان سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔
اس سال کے شروع کی بات ہے کہ جب یہی شرمناک صورت حال سعودی عرب میں پیش آئی۔ جب وہاں کی حکومت نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے بہت بڑی تعداد میں غیر قانونی پاکستانیوں کو پکڑا یہ لوگ عمرہ ویزے کی آڑ میں مقدس شہروں مکہ مدینہ بھیک مانگتے پائے گئے۔ ان میں مردوخواتین دونوں شامل تھے سعودی عرب نے بھی اس صورت حال پر پاکستان سے سخت احتجاج کیا ۔
اس حوالے سے صورت حال اس قدر سنگین ہوگئی کہ پاکستانیوں کے لیے عمرہ ویزہ کی پابندی لگنے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن یہ لوگ اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ جب ان سے پاکستان واپسی پر پوچھا گیا کہ بیرون ملک بھیک مانگ کر پاکستان کا نام روشن کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئی ۔ تو ان کا جواب یہ تھا کہ پاکستان بھی تو پوری دنیا میں بھکاری ملک کے طور پر مشہور ہے ۔ اگر ہم نے کیا تو کون سے بُرائی کی۔
عوام کو کس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ درآمدی خوردنی تیل جس سے گھی اور تیل بنایا جاتا ہے عالمی منڈی میں اس کی قیمتوں میں 24فیصد کمی کے باوجود صرف فی لیٹر 175روپے اضافی قیمت وصول کی جارہی ہے ۔اس طرح منافع خور مافیا 25کروڑ عوام سے گزشتہ آٹھ مہینوں میں اربوں نہیں کھربوں لوٹ چکا ہے ۔
اسی پر بس نہیں آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی 8تقسیم کار کمپنیوں نے صرف 244ارب روپے اووربلنگ کی مد میں عوام سے وصول کیے ہیں ۔ اسلام آباد ، لاہور ، حیدر آباد، ملتان ، پشاور ، کوئٹہ ، سکھر اور قبائلی علاقوں میں اوور بلنگ کی گئی ۔ ملتان الیکٹرک کمپنی نے مردہ افراد کو بھی 4کروڑ 96لاکھ روپے کے بل بھیج دیے ۔
جب کہ ان کے بجلی یونٹ صفر تھے لیکن بل میں 12لاکھ21ہزار 700 یونٹ ڈال دیے گئے ۔ 2023-24میں صارفین کو 90کروڑ 46 لاکھ بجلی یونٹس کے اضافی بلز بھیجے گئے ۔ آڈٹ رپورٹ میں کوئٹہ کمپنی کا زرعی صارفین سے 148ارب روپے سے زائد اوور بلنگ کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔اب ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ 200 یونٹ سے اگر ایک یونٹ بھی زائد استعمال ہو جائے تو وہ بل جو2000سے کم کا آتا ہے وہ بل اب 10 ہزار روپے کا آئے گا۔ہے نا لوٹ مار کی انتہاء۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ۔ NABذرایع کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کی تعداد 1لاکھ سے زائد تجاوز کر چکی ہے ۔ NABذرایع کے مطابق ان اسکیموں کے ذریعے 500ارب روپے سے زائد کی رقم خرد برد کی گئی ہے ۔ عام آدمی تو ایک طرف پڑھے لکھے افراد کی اکثریت بھی ان کے جال میں پھنس چکی ہے ۔ اب یہ بیچارے اپنی قسمت کا رُو رہے ہیں ۔
ہاؤسنگ اسکیموں میں فراڈ کرنا سب سے آسان ہے ۔ ایک اور دل دہلا دینے والی خبر صرف 15سرکاری اداروں میں 59کھرب کا خسارہ ۔ یعنی 59ہزار ارب روپے کا خسارہ یہ وہ رقم تھی جو عوام کے خون پسینے کی کمائی تھی ۔ جو کرپشن اور بدانتظامی کی نذر ہو گئی اسی وجہ سے پاکستان کی نصف کے قریب آبادی بدترین غربت کا شکار ہے ۔
2کروڑ نوجوان بیروزگار ہیں ۔ ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ۔ خیبر پختونخواہ ، کوہستان کرپشن کیس ، 40ارب روپے کا اسکینڈل ، بدترین لوٹ مار ، مدتوں سے پاکستانی عوام کا خون بے رحمی سے چوسا جارہا ہے ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں اصل حقیقت سامنے تو عوام غش کھا جائے ۔ صرف چند فیصد اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی پاکستانی عوام… سب شودر ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صورت حال
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)