امریکا اور چین میں تجارتی تنازع پر پیش رفت، عبوری معاہدہ طے پا گیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی کم کرنے کے لیے ایک عبوری فریم ورک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کو روکنا ہے، یہ پیشرفت لندن میں ہونے والے 2 روزہ مذاکرات کے بعد سامنے آئی، جس سے عالمی منڈیوں کو وقتی طور پر سکون ملا ہے۔
امریکی وزیر تجارت ہوورڈ لٹنک نے تصدیق کی کہ یہ معاہدہ گزشتہ ماہ جینیوا میں طے پانے والے ابتدائی اتفاقِ رائے کو عملی شکل دینے کے لیے ہے، اور اب اسے دونوں ممالک کی قیادت کے حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
چینی نائب وزیر تجارت لی چنگ گانگ نے بھی تصدیق کی کہ یہ فریم ورک صدر شی جن پنگ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 5 جون کو ہونے والی فون کال اور جینیوا مذاکرات کے نکات پر عمل درآمد کا راستہ ہموار کرے گا۔
نایاب معدنیات پر پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہمعاہدے کی ایک اہم شق کے تحت چین نے نایاب معدنیات اور میگنیٹس کی برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، یہ معدنیات الیکٹرک گاڑیوں، قابلِ تجدید توانائی اور دفاعی صنعتوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
جواباً امریکا نے چین پر عائد کچھ برآمداتی پابندیاں نرم کرنے کا عندیہ دیا ہے، جن میں سیمی کنڈکٹر ڈیزائن سافٹ ویئر، ہوابازی کے آلات اور کیمیکل کی برآمدات شامل ہیں، تاہم ان میں نرمی کی تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آئی سکی ہیں۔
ٹیرف کا خطرہ تاحال برقراراگرچہ فریم ورک معاہدہ ایک مثبت پیشرفت ہے، مگر بنیادی تجارتی اختلافات اب بھی موجود ہیں، صدر ٹرمپ کی ’لبریشن ڈے‘ پالیسی کے تحت عائد کردہ سخت ٹیرف تاحال برقرار ہیں، اگر 10 اگست تک حتمی معاہدہ نہ ہو سکا، تو دو طرفہ ٹیرف دوبارہ سخت سطح پر جا پہنچیں گے، امریکی درآمدات پر 145 فیصد اور چینی درآمدات پر 125 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔
مارکیٹ کا محتاط ردعملمعاہدے کے اعلان کے بعد عالمی سرمایہ کاروں کا ردعمل محتاط رہا، ایشیا پیسیفک مارکیٹ انڈیکس میں صرف 0.
معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی براہِ راست گفتگو کو کلیدی حیثیت حاصل رہی، امریکی حکام کے مطابق اس کال سے واضح ہدایات موصول ہوئیں جنہیں فریم ورک میں شامل کیا گیا۔
قانونی غیر یقینی صورتحال برقراراس معاہدے کے باوجود قانونی محاذ پر غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، ایک امریکی عدالت نے صدر ٹرمپ کی ’ریسی پروکل ٹیرف‘ پالیسی کو عارضی طور پر برقرار رکھنے کی اجازت دے دی ہے، جو مستقبل کے مذاکرات کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاہدہ وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر ایک جامع اور پائیدار حل اب بھی دور دکھائی دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایشیا پیسیفک تجارتی کشیدگی ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ فریم ورک لبریشن ڈے مارکیٹ انڈیکس مذاکراتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایشیا پیسیفک تجارتی کشیدگی ٹیرف چین ڈونلڈ ٹرمپ لبریشن ڈے مارکیٹ انڈیکس مذاکرات کے درمیان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان سعودی عرب دفاعی اسٹرٹیجک معاہدہ
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی اسٹرٹیجک معاہدے کو محض ان دونوں ممالک کی بنیاد پر ہی نہیں دیکھا جارہا بلکہ اسے عالمی،علاقائی اور عرب دنیا میں بھی ایک بڑی تبدیلی کے طورپر سمجھا گیا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس معاہدہ کی بازگشت ہمیں عالمی تناظر میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔یقینی طور پر یہ معاہدہ چند دنوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ کافی عرصے سے اس سوچ اور فکر پر دونوں ممالک کی فیصلہ کن قوتوں میں بات چیت کا عمل جاری تھا۔
یہ بات پہلی دفعہ کسی تحریری معاہدہ کا حصہ بنی کہ دونوں ممالک کے دشمن ایک دوسرے کے دشمن سمجھیں جائیں گے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاع میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔
اگرچہ پاکستان اور سعودی سطح کے تعلقات ہمیشہ سے مثبت رہے ہیں مگر اس معاہدہ کے بعد دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھ گیا ہے اور بالخصوص سعودی عرب سمجھتا ہے کہ موجودہ عالمی اور عرب دنیا کے حالات میں پاکستان اس کا اہم دفاعی پارٹنر ہوسکتا ہے۔
اسی بنیاد پر سعودی عرب کا انحصار پاکستان پر بڑھ گیا ہے جس سے پاکستان سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں جہاں نئی جہتیں پیدا ہوںگی بلکہ پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے بھی نئے امکانات پیدا ہوںگے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس دو طرفہ معاہدہ کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آسکیں مگر اس کے باوجود عالمی سطح کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد اور ادارے اس معاہدہ کی اہمیت پر بہت زور دے رہے ہیں کہ دنیا کے ممالک اور بالخصوص اسلامی اور عرب ممالک ایک متبادل سوچ اور فکر کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حال ہی میں سینیٹر مشاہد حسین سید جو عالمی امور سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ان کی سربراہی میں چلنے والے ایک اہم تھنک ٹینک’’ پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے دفاعی معاہدہ کی اہمیت اور مضمرات پر مشتمل پاکستان اور سعودی عرب;مسلم دنیا کے تزویراتی دفاعی شراکت دار کے عنوان سے پہلی جامع اور تحقیقاتی سطح کی رپورٹ جاری کی ہے۔
یہ رپورٹ سینیٹرمشاہد حسین سید کے لکھے گئے دیباچہ اور اہم نکات کے ساتھ 17ستمبر کو طے پانے والے دونوں ممالک کے دفاعی معاہدے کی اہمیت،مضمرات اور جیو پولیٹیکل تناظر کا احاطہ کرتی ہے۔
ان کے بقول مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے اہم جغرافیائی منظر نامہ میں گریٹراسرائیل کے بڑھتے ہوئے خطرے اور امریکی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کے فقدان نے سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ اس معاہدے کی تین وجوہات ہیں۔اول اسرائیل کی قطر کے خلاف جارحیت ہے جو ایک ایسا ملک ہے جو امریکا کا اتحادی ہے جہاں اسرائیل، امریکا فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
قطر چھٹا اسلامی ملک ہے جس کے خلاف اسرائیل نے جارحیت کی ہے، اس سے قبل وہ فلسطین،ایران ،لبنان، شام اور یمن کے خلاف جارحیت کرچکا ہے ۔دوئم قطر پر حملہ مشرقی وسطی کی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا کیونکہ قطر خطے میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا رکھتا ہے اور امریکا نے قطر کے دفاع کو اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا ،لیکن امریکا یہ کردار ادا کرنے میں عملا ناکام رہا ہے۔
اس تناظر میں اب خطے کے مسلم ممالک نے دفاعی آپشنز تلاش کرنا شروع کردیے ہیں اور پاکستان کے مسلم ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پاکستان ایک قابل عمل متبادل کے طور پر ابھرا ہے تاکہ ضرورت پڑھنے پر موثر تحفظ فراہم کرسکے۔
سوئم پاکستان نے فوجی میدان میں اپنی طاقت ثابت کی جب اس نے مئی 2025میں بھارتی جارحیت کا کامیابی سے نہ صرف دفاع کیا بلکہ ایک عددی طور پر بڑے اور زیادہ طاقت ور دشمن کو شدید اور بڑا نقصان پہنچایا ۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان فوجی اتحاد کی خواہش موجود ہے اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ یہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے ایک جامع علاقائی دفاعی نظام کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کے بقول یہ معاہدہ ابھرتے ہوئے بھارت اسرائیل معاہدے کو موثر طریقے سے قابو کرنے میں مدد دے گا اور اس عمل میںیہ معاہدہ بائیڈن اور مودی کے اس منصوبے کو بھی دفن کرچکا ہے جو ستمبر2023 میں جی20کانفرنس کے دوران آئی ایم ای سی)انڈیا اسرائیل اکنامک کوریڈور(کے آغاز کے لیے اعلان کیا گیا تھا جو کہ سی پیک اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈانیشیٹو )بی آر آئی (کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
پاکستان سعودی عرب دفاعی شراکت داری دفاع کے لیے ایک نیا ماڈل فراہم کرتا ہے جو پاکستان کی فوجی طاقت اور سعودی عرب کی معاشی قوت کے بہترین امتزاج پر مبنی ہے۔
عرب دنیا یا خلیجی ممالک اپنی سیاسی بقا اور دفاع کی سطح پر امریکا پر بڑا بھروسہ کرتے ہیں۔لیکن اب ان میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ امریکا پر یکطرفہ انحصار ان کے حق میں نہیں ہے اور امریکا ان کے مقابلے میں اسرائیل کی پشت پناہی کررہا ہے ۔
یہ ہی وہ نقطہ ہے جس نے عرب دنیا میں اپنی دفاعی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی طرف مائل کیا ہے اور اب ان کو لگتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب معاہدہ ان کے حق میں ایک نیا محفوظ راستہ کھول سکتا ہے۔ اسی طرح امریکا ،اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ پر بھی مسلم دنیا میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے عالمی منظر نامہ سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک نئے حفاظتی معاہدوں کی طرف بڑھ رہے ہیںاور یہ معاہدہ عالمی سیاست میں ایک نئے دور کی عملی نشاندہی کرتا ہے۔
خود بھارت میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس دفاعی معاہدے پر سخت پریشانی دیکھنے کو مل رہی ہے اور عملا بھارت کو پاکستان سے حالیہ جنگ میں پسپائی کے بعد اس معاہدے کی شکل میں دوسرا بڑا سیاسی جھٹکا لگا ہے ۔
کیونکہ بھارت سعودی عرب اور اسرائیل سے تعلقات کو آگے بڑھا کر پاکستان کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کررہا تھا جس میں اب اسے ناکامی کا سامنا ہے اورپاکستان ایک نئی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جو یقینی طور پر بھارت کی سفارت کاری کی بڑی ناکامی ہے ۔
بھارت جو ایران کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر اب ایران کے موقف میں بھی بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔