یوکرین نے اپنے 1212 فوجیوں کی لاشیں واپس لے لیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) لاشوں کا یہ تبادلہ استنبول میں طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ یوکرین میں قیدیوں کے تبادلے سے متعلق ایجنسی کے مطابق یہ لاشیں روس کے علاقے کروسک اور یوکرین کے خارکیف، لوہانسک، ڈونیٹسک، زاپوریژیا اور خیرسون علاقوں میں لڑائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ہیں۔
لاشوں کی واپسی کا تنازعہروس نے چند روز قبل یوکرین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لاشوں کی واپسی کے معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔
روس نے اسے ''انسانی ہمدردی کا عمل‘‘ قرار دیتے ہوئے ہفتے کے آخر میں 1,212 لاشیں واپسی کے لیے تیار کیں لیکن یوکرین کا کہنا تھا کہ ابھی تک واپسی کی تاریخ پر کوئی اتفاق نہیں ہوا۔بدھ کو یوکرین کی ایجنسی نے تصدیق کی کہ لاشوں کی واپسی مکمل ہو گئی ہے۔
(جاری ہے)
ہلاک شدہ 6,000 سے زائد فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کا معاہدہ استنبول مذاکرات میں طے پایا تھا۔
دوسری جانب کریملن نے 27 روسی فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کی تصدیق کی ہے۔ قیدیوں کا تبادلہدریں اثنا روس کے اعلیٰ مذاکرات کار ولادیمیر میڈینسکی نے اعلان کیا ہے کہ جمعرات سے دونوں فریق شدید زخمی اور بیمار جنگی قیدیوں کا تبادلہ شروع کریں گے۔ یہ تبادلہ استنبول معاہدے کا حصہ ہے، جس میں 1,000 سے زائد قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ اس تبادلے میں 18 سے 25 سال کے نوجوان اور شدید زخمی فوجیوں پر توجہ دی جائے گی۔ پیر کو شروع ہونے والے اس عمل میں پہلے ہی کچھ قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا ہے، جو بڑے پیمانے پر ''سب کے بدلے سب‘‘ معاہدے کا حصہ ہے۔ خارکیف پر نئے حملےاسی دوران منگل اور بدھ کی درمیابی شب روس نے یوکرین بھر میں ڈرون حملے کیے، جن میں خارکیف شہر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
یوکرینی حکام کے مطابق 17 ڈرونز نے دو رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جس سے تین افراد ہلاک اور 64 زخمی ہوئے۔ صدر زیلنسکی نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے روس پر دباؤ بڑھانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، ''ہر نیا دن روس کے نئے وحشیانہ حملے لاتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘یوکرین: تازہ حملوں میں روس نے کییف اور اوڈیسا کو نشانہ بنایا
روس اور یوکرین کے مابین تنازعہ فروری 2022 میں شروع ہوا اور اب تک ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی جانیں لے چکا ہے۔
استنبول مذاکرات میں، جو حالیہ ہفتوں میں ہوئے، انسانی ہمدردی کے اقدامات، جیسے لاشوں اور قیدیوں کے تبادلے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ تاہم دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ یوکرین نے ان روس کے دعوؤں کی تردید کی ہے کہ اس نے لاشوں کے تبادلے میں تاخیر سے کام لیا ہے۔میڈینسکی نے دعویٰ کیا کہ روس نے یوکرین سے 640 جنگی قیدیوں کی فہرست مانگی ہے لیکن یوکرین نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی۔
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لاشوں کی واپسی فوجیوں کی روس کے
پڑھیں:
امریکہ کو الزام تراشی بند کرنی چاہیے اور یوکرین امن مذاکرات کو فروغ دینا چاہیے ، چین
اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس-یوکرین تنازعے پر ایک کھلا اجلاس منعقد کیا، جس میں اقوام متحدہ میں چین کے نائب مستقل مندوب گنگ شوانگ نے تمام فریقوں سے یوکرین بحران کے سیاسی حل کو فروغ دینے کے لیے مذاکرات کا رجحان برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ اس کے علاوہ، انھوں نے امریکی مندوب کی چین پر بے بنیاد تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو سلامتی کونسل میں گزشتہ ہفتے کے دوران اپنے نامناسب رویے پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ گنگ شوانگ نے کہا کہ چین روس اور یوکرین کے مابین حالیہ جنگی قیدیوں اور ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشوں کے تبادلےسمیت انسانی مسائل پر مثبت پیش رفت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انہوں نے متعلقہ فریقین سے اپیل کی کہ وہ مذاکراتی رجحان کو برقرار رکھیں، مسلسل اتفاق رائے پیدا کریں، باہمی اعتماد کو مضبوط بنائیں اور بالآخر ایک جامع، دیرپا اور پابند امن معاہدے پر پہنچیں۔ گنگ شوانگ نے نشاندہی کی کہ چین امن کی جانب لے جانے والی تمام کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے اور روس اور یوکرین دونوں فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ سیاسی آمادگی اور لچکدار رویہ جاری رکھیں۔ تمام فریقوں کو بحران کے سیاسی حل کو آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنی چاہئیں۔اس کے علاوہ گنگ شوانگ نے کہا کہ ایک ہفتے کے دوران ، امریکہ نے مسلسل سلامتی کونسل میں چین پر بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ یہ سلسلہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کا مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا یا جنگ اور تنازعات کا سیاسی حل تلاش کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ دوسرے ممالک پر حملہ کرنے، سیاسی کھیل کھیلنے اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر الزامات لگانے اور ذمہ داری سے بچنے کی بجائے، جنگ بندی اور امن مذاکرات کے لیے عملی کوششیں کرے۔
Post Views: 4