عوام دشمن بجٹ مسترد کرتے ہیں محمد کاشف صابرانی
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)آل تاجران سندھ اتحاد کے چیئرمین محمد کاشف صابرانی نے کہا کہ ہم اس عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتے ہیں بجٹ میں صحت کے لیے ” ھوالشافی” تعلیم کے لیے ” رب ذرنی علما” اور خوراک کے لیے ” واللہ خیر تازقین ” کے وظیفے مختص کئے گئے ہیں عوام خوب ورد کریں یہ ایک خود ساختہ بجٹ ہے جس میں اور چھوٹی اور بڑی گاڑیوں پر جی ایس ٹی ساڑھے بارہ فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا فیصلہ آ لٹو کی قیمت میں ڈیڑھ لاکھ جبکہ بڑی گاڑیوں میں 10 لاکھ تک اضافہ کیا گیا جبکہ سولر پینلز کی درآ مدات پر 18 فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا ہے لوگوں کا برا حال ہے وہ اپنے گھر کی بجلی منقطع کروا رہے ہیں، بجلی اور ٹرانسپورٹ میں پچاس فیصد تنخواہ صرف ہو جاتی ہے، مہنگائی کم کریں، تنخواہیں بے شک نہ بڑھائیں کاشف صابرانی نے کہا کہ دراز، ٹیمو اور علی ایکسپرس وغیرہ سے آن لائن چیزیں خریدنے پر بھی 18 فیصد ٹیکس دینا ہوگا کورئیر کمپنیاں بھی ٹیکس جمع کریں گی کاشف صابرانی نے کہا کہ زراعت بالخصوص کپاس کی پیداوار 1990 کی دہائی سے بھی کم ہو گئی ہے لیکن حکومت بضد ہے کہ ہم نمو کی جانب گامزن ہے کاشف صابرانی نے کہا کہ کراچی کے-فور منصوبے کے لیے محض تین ارب بیس کروڑ روپے مختص کیے گئے، حکومت نے بجٹ میں کراچی کو مکمل نظر انداز کیا ہیحکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے نہ پہلے کوئی کام کیا اور نہ آج کے بجٹ میں بات کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کاشف صابرانی نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
ٹیکس نظام، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جارہی ہیں، وزیرخزانہ
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جارہی ہیں۔
اسلام آباد میں سینیٹر محمد اورنگزیب، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے، ہم نے میکرو اکنامک استحکام سے متعلق اہم کام کیا ہے، ہمارا ہدف پائیدار معاشی استحکام یقینی بنانا ہے، پائیدار معاشی استحکام کے لیے ریفارمز ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت میں بنیادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، عالمی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کیا، آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ بھی معاشی استحکام کی توثیق ہے۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہماری معاشی سمت درست ہے، پالیسی ریٹ میں کمی کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے، ٹیکس نظام، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات لائی جارہی ہیں اور پنشن اصلاحات، رائٹ سائزنگ بھی بنیادی اصلاحات کا حصہ ہیں۔
’ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس سال انکم ٹیکس گوشواروں میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھ کر 59 لاکھ ہوگئی ہے، ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انفرادی ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی شرح میں اضافہ ہوا، موثر اقدامات کے باعث ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا، ایف بی آر کو تمام اداروں کا تعاون حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بار ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا ہے، ٹیکس سے متعلق بجٹ میں منظور ہونے والے اقدامات پر عمل پیرا ہیں، وزیراعظم ٹیکس اصلاحات پر ہفتہ وار بنیادوں پر اجلاس کی صدارت کرتے ہیں۔
راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ ٹیکس اصلاحات میں وقت درکار ہوتا ہے، ہمیں اگلے 3 سے 4 سالوں میں ٹیکس اصلاحات کو جی ڈی پی کے 18 فیصد پر لے جانا ہے جس میں صوبوں کا تعاون بھی شامل ہوگا اور اس میں وفاق کا تعاون 13.5 فیصد جو ایف بی آر سے آئے گا اور 1.15 فیصد پی ڈی ایل سے ملے گا، یعنی 15 فیصد وفاق اور 3 فیصد صوبوں سے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کو اگلے 3 سالوں میں 3.52 فیصد اضافہ کرنا ہے لیکن صوبوں میں نے 2.15 اضافہ کرنا ہے کیوں کہ صوبوں کی بیس .85 ہے جس میں 2.15 شامل کرنا بہت مشکل ہے، وفاق کے مقابلے میں جو اس وقت 10 فیصد پر ہے اس پر 3.5 فیصد اضافہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے جو اداروں کی تعاون کی بات کی تو اصل میں منشیات کے شعبے میں بہت بڑا گیپ تھا جب ہماری ٹیم ان کے پاس جاتی تھی تو ان کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا اور ابھی کوہاٹ ٹنل میں ہمارے 2 لوگ شہید بھی ہوئے ہیں، اس لیے ہم لوگ ڈرتے بھی ہیں کیوں کہ ہمارا کام لڑنا نہیں ہے اور نہ ہماری ٹریننگ ویسے ہوتی ہے، ہمارا بنیادی کام ٹیکس کے قوانین کی پابندی کرنا یا ٹیکس کی ادائیگی کے اصولوں پر عمل کروانا ہے اور اب ہمیں رینجرز سمیت دیگر اداروں کی سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہورہا ہے۔
’اب حکومت بجلی نہیں خریدے گی‘
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ہمیں وراثت میں بہت مہنگی بجلی ملی اور اس کی بہت ساری وجوہات تھیں جب کہ ہمارے ہاتھ ابھی بھی بندھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ 18 ماہ میں بجلی کی قیمت میں 10 سے ساڑھے 10 روپے فی یونٹ کمی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں موقع ملے، ہماری سرپلس پاور تھی، ہم نے 3 مہینے کا پیکچ کیا اور انڈسٹری کو 26 روپے فی یونٹ فراہم کرنا شروع کیا جب کہ ای وی کا ریٹ 71 روپے سے کم کرکے 39 روپے فی یونٹ پر لائے جب کہ انڈسٹریز کے لیے 16 روپے فی یونٹ کمی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں وزارت خزانہ نے ہماری بہت مدد کی، ہم نے 8 سے 9 مہینے کی جدوجہد کے بعد میں نے وزیر خزانہ سے کہا کہ ہمارے پاس 7 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پڑی ہے، اسے میں بند الماری میں نہیں رکھ سکتا، اس لیے ان سے اجازت لی اور صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت اتنی ہی کردی ہے جتنے کی ہمیں مل رہی ہے۔