وفاقی بجٹ دکھاوا ہے، عوام کو ریلیف نہیں ملا، صدر سپریم کورٹ بار
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں محمد رؤف عطا نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے مالی سال 2025-26ء کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے “دکھاوا” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں اصل اصلاحات کے بجائے محض نمائشی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جو عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کریں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق میاں محمد رؤف عطا نے کہا کہ یہ بجٹ عوام کے لیے نہیں صرف مراعات یافتہ طبقے کے فائدے کے لیے بنایا گیا ہے، مہنگائی کے اس طوفان میں ضروری اشیاء کی قیمتیں پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں، اور یہ بجٹ ان مشکلات میں اضافہ کرے گا۔”
سپریم کورٹ بار کے صدر نے حالیہ دنوں میں اعلیٰ عدلیہ، اسپیکر، چیئرمین سینیٹ، اور ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں “غیر معمولی اضافہ” پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں تو اشرافیہ کی مراعات بڑھانا ناانصافی ہے، اور کم از کم تنخواہ کو 37 ہزار روپے پر برقرار رکھنا عوام کے ساتھ مذاق ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے امیر طبقے کو سبسڈی دے کر غریب کو نظرانداز کیا ہے، بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کے لیے بھاری فنڈز مختص کیے گئے جب کہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
انہوں نےمزید کہاکہ تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبے اس بجٹ میں پیچھے رہ گئے، وزارتیں ختم کرنے یا ان کا انضمام کرنے سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے، جب تک حکومت اپنی شاہانہ روش ترک نہیں کرتی۔
رؤف عطا نے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنے اخراجات پر نظرثانی کرے اور غریب عوام کے لیے عملی ریلیف فراہم کرے، بصورت دیگر اس بجٹ سے عوام میں مزید بےچینی اور مایوسی پیدا ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ؛ لاہور ہائیکورٹ بار کی فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کیلئے درخواست
اسلام آباد:لاہور ہائی کورٹ بار نے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
لاہور ہائی کورٹ بار نے درخواست میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا 7 مئی کا فیصلہ آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانا آرٹیکل 10A اور 175(3) کے خلاف ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں شفاف ٹرائل اوراپیل کا حق نہیں اور منصفانہ سماعت ممکن نہیں اور سپریم کورٹ کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار نے استدعا کی ہے کہ تاریخ میں کبھی شہریوں پر فوجی عدالتوں کا اطلاق نہیں ہوا لہٰذا سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کالعدم قرار دے۔