سعودی عرب کی ایران پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت، اقوام متحدہ سے فوری اقدام کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
سعودی عرب نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ایران کی خودمختاری اور سلامتی پر حملہ قرار دیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "یہ گھناؤنے حملے ناقابلِ قبول ہیں، اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جارحیت کو فوری طور پر روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔"
وزارتِ خارجہ نے زور دیا کہ ایران سعودی عرب کا برادر اسلامی ملک ہے، اور اس کے خلاف کی گئی یہ واضح جارحیت خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اگر دوبارہ جارحیت کی تو مزید سخت جواب ملیگا، سید عباس عراقچی کا امریکہ کو انتباہ
اپنے ایک بیان میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک ملین سے زائد ایرانیوں کو میڈیکل ریڈیو آئسوٹوپس کی ضرورت ہے جو تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں تیار ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے امریکی حکام کی دھمکیوں کے جواب میں متنبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر دوبارہ ایسی غلطی کی گئی تو ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے جسے دنیا کی آنکھوں سے چھپانا ممکن نہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سات ہزار سالہ تہذیب رکھنے والا ملک ایران، کبھی بھی دھمکیوں اور ہے دھونس سے نہیں دبے گا۔ ایرانیوں نے کبھی غیروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور وہ صرف عزت کے جواب میں احترام دیتے ہیں۔ سید عباس عراقچی نے امریکی تعاون سے ہونے والی صیہونی عسکری مہم جوئی کے حوالے سے کہا کہ ایران کو بخوبی علم ہے کہ اس حالیہ امریکی-اسرائیلی جارحیت کے دوران ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ کیا ہوا ہے، بشمول اُن نقصانات کے جو ابھی تک چھپائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ایرانی وزیر خارجہ کسی بھی امریکی دراندازی پر انتباہ جاری کر چکے ہیں، آج ایک بار پھر انہوں نے کہا کہ اگر دوبارہ کوئی نیا ایڈونچر کیا گیا تو ہم بلاشبہ پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ ہمارے جواب کے اثرات دنیا سے چھپائے نہیں جا سکیں گے۔ انہوں نے ایران کی پُرامن جوہری توانائی کی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملین سے زائد ایرانیوں کو میڈیکل ریڈیو آئسوٹوپس کی ضرورت ہے جو تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں تیار ہوتے ہیں۔ یہ ری ایکٹر، جسے امریکہ نے بنایا تھا، 20 فیصد تک افزودہ یورینیم سے چلتا ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمیں اپنے نئے جوہری ری ایکٹرز کے ایندھن کے لیے بھی یورینیم کی افزودگی درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی جانوں کی حفاظت سے متعلق اپنی مقامی اور پُرامن ٹیکنالوجی میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری کے ثمرات کو کوئی بھی عقلمند انسان، صرف بیرونی طاقتوں کی خواہش پر ترک نہیں کرے گا۔ انہوں نے امریکہ و اسرائیل کے نطنز، فردو اور اصفہان کے جوہری مراکز پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ غیر قانونی بمباری نے ہمارا موقف ثابت کر دیا کہ اس مسئلے کا کوئی عسکری حل موجود نہیں۔ اگر ہمارے جوہری پروگرام کے غیر امن مقاصد کی جانب مڑنے کے بارے میں خدشات تھے، تو فوجی آپریشن تو ناکام ہو چکا ہے۔ لیکن شاید بات چیت کا کوئی راستہ نکال سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سب جان لیں کہ ہم نے اپنا پُرامن جوہری پروگرام خریدا نہیں، بلکہ اپنے خون، پسینے اور آنسوؤں سے حاصل کیا ہے۔ سید عباس عراقچی نے یاد دلایا کہ ہمارے قابل اور باصلاحیت لوگوں نے جو ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارت حاصل کی ہے وہ بمباری سے ختم نہیں ہو سکتی۔
جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہاں، ہماری یورینیم انرچمنٹ کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا لیکن ہمارا عزم اور ارادہ اپنی جگہ قائم ہے۔