کے-الیکٹرک گرینڈ فائنل تقریب اختتام پذیر، توانائی کے مستقبل کو تقویت دینے کا عزم
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
کراچی(اوصاف نیوز)توانائی کے شعبے میں لوکلائزیشن اور جدت کے فروغ کے عزم کے ساتھ کے۔الیکٹرک نے بدھ کو انرجی پروگریس اینڈ انوویشن چیلنج (EPIC) 2025 کے گرینڈ فائنل کی تقریب منعقد کی۔
سخت جانچ پڑتال کے بعد 10 میں سے تین بہترین منصوبے منتخب کیے گئے اور انہیں بالترتیب 15 لاکھ، 10 لاکھ، اور 7 لاکھ 50 ہزار روپے کے انعامات دیے گئے۔
پہلا انعام NUST کی ٹیم کو دیا گیا، جنہوں نے ایک جدید اور ٹیمپر پروف پی ایم ٹی پر مبنی لوڈشیڈنگ کا حل تیار کیا۔ اس ٹیم کی قیادت عبدل ہادی اور سید عبدل حسیب علی نے کی۔
دوسرا انعام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی ٹیم نے حاصل کیا، جس کی قیادت ڈاکٹر عبدالرؤف بھٹی اور طلاطف رشید نے کی، جنہوں نے آرٹیفیشل نیورل نیٹ ورک کے ذریعے بجلی کی طلب کی پیش گوئی کے عمل کو خودکار بنانے کا حل پیش کیا۔ تیسری پوزیشن این ای ڈی یونیورسٹی کی ٹیم کے حصے میں آئی، جس میں شارق شیخ، صہیب الدین، محمد ولید اور مبشر علی شامل تھے۔ انہوں نے بجلی کی طلب کی درست پیش گوئی کے لیے موثر AI ماڈل تیار کیا۔
فاتحین کا انتخاب کرنے والے جیوری اراکین میں ماہا قاسم، بانی و سی ای او، زیرو پوائنٹ پارٹنرز؛ شہریار عمر، چیف ایگزیکٹو آفیسر، پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ آف پاکستان؛ شہریار حیدری، منیجنگ ڈائریکٹر،Endeavor Pakistan؛ عامر اقبال، سی ای او، سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی؛ تارا عذرا داؤد، سی ای او، لیڈیز فنڈ انرجی؛ انعام الرحمن، صدر، Disrupt.
اس موقع پر کے۔الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نےخوشی کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ EPIC 2025 مستقبل کی توانائی کی ضروریات کو بامقصد جدت طرازی کے ذریعے تشکیل دینے کے کے۔ الیکٹرک کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پیچیدہ ہوتی جارہی ہیں، اب ہمیں روایتی طریقوں سے نکل کر ایسے خیالات کو جگہ دینی ہوگی جو پائیدار، طویل المدتی اور بڑے پیمانے پر اثرانداز ہوسکیں۔ EPIC سلوشنز تلاش کرنے کا نام نہیں، یہ ان سلوشنز کو قابل عمل بنانے کے لیے ایک مستحکم نظام تشکیل دینے کی کوشش ہے۔
کے۔ الیکٹرک کی چیف ڈسٹری بیوشن اینڈ مارکومز آفیسر سعدیہ دادا نے کہا کہ EPIC صرف ایک پلیٹ فارم نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ یہ خیالات کو عمل میں تبدیل کرنے اور لاکھوں صارفین کے لیے رسائی، اعتماد اور پائیداری کو بہتر بنانے کا عمل ہے۔ EPIC کو منفرد بنانے والی بات یہ ہے کہ یہ کے۔ الیکٹرک کی ایک ایسے جدید ادارے میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے جو نہ صرف مستقبل سے ہم آہنگ ہے بلکہ اسے تشکیل دینے میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ آج ہم جدت میں سرمایہ کاری کر کے، تعلیمی اداروں، صنعت اور اسٹارٹ اَپس سے باصلاحیت ذہنوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر حقیقی دنیا کے مسائل کا حل نکال رہے ہیں، اور ایسے حل تیار کر رہے ہیں جو پورے توانائی کے شعبے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مارچ 2025 میں شروع کیے گئے EPIC چیلنج کو ملک بھر سے 250 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں اور اُس نے توانائی کی صنعت میں انقلابی جدتوں کی ترقی کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم کے طور پر خود کو کامیابی سے منوالیا ہے۔ مختلف شعبوں کے سربراہان پر مشتمل جیوری نے تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد 10 بہترین تجاویز کو گرینڈ فائنل کے لیے منتخب کیا۔ ان منصوبوں میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے طلب کی پیش گوئی، آئی او ٹی پر مبنی فلیٹ مینجمنٹ اور اسمارٹ طریقے سے چوری کی نشاندہی جیسے جدید منصوبے شامل تھے۔
ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت، ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے،پاکستان
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔
وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔