کشمیر کامسئلہ برصغیرکے دواہم ممالک، پاکستان اوربھارت،کے درمیان ایک دیرینہ اورپیچیدہ تنازع ہے،جس پروقتاًفوقتاًعالمی قوتوں کی توجہ رہی ہے۔ان میں سرِفہرست امریکا ہے، جو کبھی ثالثی کے روپ میں،کبھی سٹرٹیجک شراکت دارکے طورپر،اورکبھی محض تماشائی کی حیثیت سے کرداراداکرتارہاہے۔یہ مقالہ اس تاریخی پس منظرکوبیان کرتاہے جس میں امریکاکی ثالثی کی پیشکشیں، پاکستانی ریاست کی توقعات،اوران کے نتائج کاگہراتجزیہ شامل ہے۔
تاریخ ایک خاموش مؤرخ ہے جوکبھی جھوٹ نہیں بولتی،بشرطیکہ اسے سننے والااہلِ فکرو دانش ہو۔جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ، بالخصوص پاکستان اوربھارت کے باہمی تنازعات کے تناظر میں،امریکی کردارایک ایساباب ہے جوبارہا امید کے سراب میں لپٹا، مایوسی کی دھندمیں گم ہوکر ابھرتا رہاہے۔یہ رپورٹ اس تاریخ کے پیچ وخم کو بیان کرتی ہے جوامریکی ثالثی ،پاکستانی توقعات، اور بھارتی مصلحتوں کے بیچ الجھی ہوئی ہے۔
تاریخ اس بات کی بھی چشم دیدگواہ ہے کہ عالمی سیاست میں کوئی مستقل دوست یادشمن نہیں ہوتا،مفادہی اصل میزان ہے۔مگراگراس کسوٹی پردنیاکی سب سے بڑی جمہوریت اور طاقتور ریاست یعنی امریکاکوپرکھاجائے،تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے بعدانہی دوستوں کی قربانی دینے میں دیرنہیں لگاتا جنہوں نے اس کیلئے خطرات مول لیے ہوتے ہیں۔
دنیا کی سفارتی بساط پربعض چالیں شطرنج سے بھی زیادہ مہلک اورپیچیدہ ہوتی ہیں۔جب امریکا جیساسوداگرِامن،اپنے ہاتھ میں مفادات کی ترازو تھام کرثالثی کالبادہ اوڑھتاہے ،تومظلوم کوبسا اوقات وہی کچھ ملتاہے جوذی روح کوکسی بے ضمیر تاجرکی تجویزکردہ سوداگری میں نصیب ہوتا ہے:’’چپ رہو،زمین دے دو،باقی ہم دیکھ لیں گے‘‘۔
اہلِ نظرجانتے ہیں کہ برصغیرکی تاریخ کا ہر ورق اس المناک حقیقت سے لبریزہے کہ پاکستان نے جب جب امریکاکی جانب امیدو استقامت کے چراغ جلائے،توہواکارخ یوں بدلاکہ نہ چراغ بچے نہ تیل۔ماضی کاہرسنگ میل گواہ ہے کہ ہم نے ہرمرتبہ انکل سام کے دل لبھانے کیلئے اپنا تن،من،دھن پیش کیا،اورجب صلہ مانگاتوکچھ جملہ معترضہ اورچندمشورے ہاتھ آئے۔
یادش بخیر،1962ء کی خزاں میں جب ہمالیہ کی چوٹیوں پرہندوستان اورچین کی توپیں گرج رہی تھیں،توعقل وتدبرکی بعض جگنو صفت آوازیں پاکستان کے ایوانِ اقتدارمیں یہ کہہ کر ابھریں کہ ’’اب وقت ہے،کشمیر حاصل کرنے کا‘‘، دانش مندی نے بھی بارہااکسایا کہ انڈیا اورچین کی1962ء کی جنگ پاکستان کیلئے ایک سنہری موقع تھاکہ وہ کشمیرپرکوئی فیصلہ کن قدم اٹھاسکے۔اورکئی عسکری ماہرین اورسیاسی مبصرین نے اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کومشورہ دیاکہ یہ وقت بھارت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کشمیرکی بازیابی کا ہے۔
شنیدیہ بھی ہے کہ چین کی طرف سے بھی خاموش سفارت کاری کے ذریعے اس بیش بہا قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھانے کاپیغام بھی دیا گیا مگراس وقت خودساختہ فیلڈمارشل ایوب خان نے امریکا کی کینیڈی انتظامیہ کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے غیرجانبداری اختیارکی،یہ سوچ کرکہ کل کینیڈی ثالث بنے گا،انصاف کی میزان تھامے گااورکشمیرہمارے ہاتھ آجائے گا۔ ثالثی کرکے پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گا اور یوں ایوب خان نے ناقابل معافی فحش اورظالمانہ غلطی کرکے واشنگٹن کے وعد فرداپریقین کر تے ہوئے بندوق نیام میں ڈال دی۔مگرتاریخ نے یہ دکھایاکہ امریکانے یہ وعدہ کبھی وفانہیں کیا۔ لیکن نتیجہ؟ امریکی ثالثی ایک خواب نکلی جوآنکھ کھلتے ہی بکھرگیا۔اس طرح 1962ء کی انڈیا‘ چین جنگ کے بعدپاکستان کی بے سودامیدیں آج بھی پاکستان کے مقتدرکے ایوانوں کی نالائقیوں کانوحہ پڑھ رہی ہیں۔
1950ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ سیٹواورسینٹوجیسے دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیارکی۔ان معاہدات کے تحت پاکستان کو فوجی امدادتوملی،مگریہ امدادصرف کمیونسٹ خطرات سے نبٹنے کیلئے مخصوص تھی،نہ کہ بھارت جیسے علاقائی حریف کے خلاف۔1959ء کادفاعی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھاجس میں کمیونسٹ ممالک سے تحفظ کا وعدہ توتھامگرعملی فائدہ صفر رہا۔گویاپاکستان کیلئے امریکاکے ساتھ یہ دفاعی معاہدے ایک ایسے یکطرفہ نفع کی شکل اختیار کرگئے جس کامکمل فائدہ امریکا کے حق میں تھا۔
تاریخ اس حقیقت کی شاہدہے کہ امریکا اپنے مفادات کی تکمیل کے بعدانہی دوستوں کی قربانی دینے میں لمحہ بھرکی تاخیرنہیں کرتا جنہوں نے اس کی جنگوں اورجارحانہ عزائم کو اخلاقی ،عسکری اورسفارتی مدد فراہم کی ہوتی ہے۔ پاکستان اس تلخ تجربے سے سب سے زیادہ گزرا ہے۔1950ء کی دہائی میں سیٹواورسینٹوکے خواب دکھاکرپاکستان کوایک ایسے راستے پر گامزن کیا گیا جہاں منزل محض ایک سراب تھی۔دفاعی معاہدات کی چھتری تلے سوویت مخالف اقدامات کیلئے پاکستان کوآلہ کاربنایاگیا۔
مگرپھرجب1965ء کی جنگ میں ہم نے اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے اسلحہ اٹھایا،توامریکانے وہی مہیاکردہ ہتھیاربندکردیے۔امریکانے واضح کیا کہ فراہم کردہ دفاعی سازو سامان بھارت کے خلاف استعمال کیلئے نہیں دیاگیاتھاجبکہ1965ء کی جنگ میں امریکاسے عملی مددکی امیدکی گئی تو ہتھیاروں کی فراہمی روک کرامریکانے پاکستان کو اس غلط فہمی سے نکال دیاکہ وہ کبھی بھارت کے خلاف پاکستان کامددگارہوسکتاہے۔تاریخ نے ان سنگین لمحات کواپنے سینے میں محفوظ کرلیاہے جب پاکستان کوبتایاگیاکہ ’’یہ تمہیں کمیونسٹوں سے بچانے کیلئے دیے تھے،دہلی سے نہیں‘‘!اب یہ کوئی نئی بات تونہ تھی،مگرہماری امیدیں ہمیشہ وفاکی قاصد رہیں،بھلے وفاکا مسکن واشنگٹن کی پالیسیوں میں کبھی نہ ملا۔تاہم ایوب خان کوکینیڈی انتظامیہ نے یہ تاثرضروردیاکہ بھارت کے خلاف کوئی عسکری اقدام غیرضروری ہے،اوروہ ثالثی کا کردار سنجیدگی سے اداکریں گے۔نتیجہ؟مسئلہ وہیں کاوہیں رہا۔یہ پاکستان کیلئے ایک تلخ یاد دہانی تھی کہ وہ امریکاکے مفادات کامہرہ رہاہے،نہ کہ ایک خودمختارسٹریٹیجک حلیف۔
پھرجب1971ء کی شامِ ستم ڈھاکہ میں ڈھلی، توزخم خوردہ ریاست کونہ صرف آدھا وجود گنوانا پڑا بلکہ جنگی قیدیوں کی رہائی کی قیمت میں شملہ معاہدے کی وہ شق ماننی پڑی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیرکے حق میں منظورکردہ قراردادوں کو تاریخ کی الماری میں بند کرکے اس پردھول چڑھنے دی۔کیایہ سیاسی حکمت تھی یامجبوری کی معذرت؟تاریخ کے ہرمؤرخ کا قلم مختلف جواب دے گا،مگرہر جواب میں پاکستان کی تنہائی ضرور ہوگی اوراس میں قصوروارہمارے مقتدرافرادہی نظرآتے ہیں۔
یادرہے کہ1970ء میں یحییٰ خان نے چین اورامریکاکے تعلقات بحال کرانے میں کلیدی کرداراداکیاتھامگراس کی’’اجرت‘‘نہ کشمیر کی صورت میں ملی،نہ مشرقی پاکستان کے تحفظ کی صورت میں۔نتیجتاً1971ء کی جنگ میں نہ صرف پاکستان دولخت ہوابلکہ شملہ معاہدے کی وہ شق بھی مانی گئی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کی اہمیت ختم کردی۔بھٹوکی سفارتکاری کوعظیم کامیابی کے طورپرپیش کیا گیا مگر وقت نے بتایاکہ اصل کامیابی کاغذ پر تھی، زمینی حقائق میں نہیں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کے پاکستان کو بھارت کے کے خلاف کی جنگ
پڑھیں:
پاکستان میں بجٹ کی سیاست
جون کا مہینہ جیسے ہی قریب آتا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ وہ اہم دستاویز ہے جسے ’’وفاقی بجٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف آمدن اور خرچ کا گوشوارہ نہیں بلکہ حکومت کی ترجیحات، ارادوں اور مسائل کا عکاس ہوتا ہے۔ آئینی طور پر مرتب کردہ اور ضابطہ کار کے مطابق پیش کیا جانے والا یہ بجٹ عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس کے مندرجات کا تجزیہ کریں، اس پر تنقید کریں اور بالآخر اس کی منظوری دیں۔ یہ عمل محض مالی کارروائی نہیں بلکہ جمہوریت کا ایک مظہر ہے جہاں ریاست کا مالی وژن سامنے آتا ہے اور اس پر بحث ہوتی ہے۔
پاکستان کے قیام 1947ء سے اب تک ستر سے زائد وفاقی بجٹ پیش کیے جا چکے ہیں، جن کا انداز، حکمت عملی اور نتائج وقت کے ساتھ مختلف رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد کے سادہ بجٹوں سے لے کر موجودہ دور کے پیچیدہ اور تکنیکی بجٹوں تک، ہر بجٹ اپنے زمانے کی معاشی حقیقتوں کا عکس اور قومی پالیسی کی راہ دکھانے والا نقشہ رہا ہے۔
وفاقی بجٹ پیش کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ سے وزیر خزانہ پر رہی ہے، اگرچہ بعض مواقع پر یہ فریضہ وزیراعظم یا کسی قائم مقام وزیر نے بھی انجام دیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد نے پہلا بجٹ 28 فروری 1948ء کو سندھ اسمبلی چیمبر کراچی میں ڈپٹی صدر تمیز الدین خان کی زیر صدارت پیش کیا۔ اس کے بعد سے لے کر موجودہ دور تک منتخب حکومتوں اور نگران حکومتوں کے وزرائے خزانہ یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ 1985ء میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے بعد بجٹ اجلاس زیادہ باقاعدہ، منظم اور قانون سازی میں فعال ہو گئے۔ یہ بجٹ مباحثے پارلیمان کی کارکردگی اور سیاسی بلوغت کا پیمانہ بن گئے۔
1985ء سے اب تک کے بجٹ اجلاسوں کا تقابلی مطالعہ ایک مخلوط تصویر پیش کرتا ہے۔ ضابطہ کار کے مطابق اراکین پارلیمان کو بجٹ کے تمام پہلوؤں پر بات کرنے کی اجازت ہے،جیسے معیشت کی مجموعی صورتحال، ٹیکس تجاویز، ترقیاتی اخراجات، اور مختلف شعبوں کی ترجیحات۔ مگر حقیقت میں بجٹ تقاریر اور مباحثے اکثر ان بنیادی مالی امور سے ہٹ کر سیاسی نکتہ چینی، علاقائی مسائل، انتظامی شکایات اور دیگر موضوعات کی طرف نکل جاتے ہیں۔
17 جون 1975 ء کو بجٹ پر عمومی بحث کے دوران محترمہ ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر عشرت خاتون عباسی نے واضح رولنگ دی کہ ’’بجٹ پر عمومی بحث کے دوران اراکین کسی بھی معاملے پر اظہار خیال کر سکتے ہیں‘‘۔ 1985ء کے بعد کی اسمبلی کارروائیوں کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ اجلاسوں کے دوران ہونے والی تقریر کا اوسطاً صرف 40 فیصد حصہ بجٹ سے متعلقہ موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ باقی 60 فیصد وقت دیگر سیاسی معاملات پر صرف ہو جاتا ہے۔ سیاسی استحکام کے دنوں میں بجٹ پر مرکوز گفتگو کی شرح قدرے بڑھ جاتی ہے، مگر سیاسی بحران یا حکومت کی تبدیلی کے مواقع پر بحث زیادہ جذباتی اور کم پالیسی پر مبنی ہو جاتی ہے۔
سال 1988، 1993، 1999، 2008 اور 2018 ء کے بجٹ اجلاس خاص طور پر سیاسی تبدیلیوں، نگران حکومتوں یا اچانک حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے متاثر ہوئے، جبکہ 2002، 2013، اور 2021 ء کے سیشن زیادہ منظم اور موضوعاتی تھے، جن میں پارلیمانی کمیٹیوں اور حزب اختلاف نے بجٹ دستاویزات پر تفصیل سے کام کیا۔
قائدین اور رہنماؤں کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ وہ اسپیکرز جنہوں نے ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کروایا اور وہ وزرائے خزانہ جو ایوان میں موجود رہے اور سوالات کا جواب دیتے رہے، ان کی موجودگی نے بحث کو مالیاتی مواد پر مرکوز رکھا۔ جب قیادت کمزور ہوئی اور نظم و ضبط میں نرمی آئی، تو بجٹ بحث بھی متاثر ہوئی۔ مزید یہ کہ بیشتر اراکین پارلیمان کے پاس بجٹ کے تکنیکی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے مطلوبہ سہولتیں اور معاونت موجود نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ان کی شرکت محدود رہتی ہے۔
ان رکاوٹوں کے باوجود، بجٹ پر بحث پارلیمانی تقویم کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے دعوؤں کو چیلنج کرنے کا موقع حاصل کرتی ہے اور حکومت اپنی کارکردگی کا دفاع کرتی ہے۔ اسی موقع پر پارلیمان عوام کو ٹیکس، سبسڈی، سرکاری سرمایہ کاری اور اقتصادی اصلاحات کے معاملات پر براہ راست پیغام دیتی ہے۔ اس لحاظ سے، اگرچہ بعض اوقات گفتگو موضوع سے ہٹ جاتی ہے، تب بھی وہ جمہوری مقصد کی تکمیل کرتی ہے، اگرچہ تکنیکی گہرائی کی قیمت پر۔
جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے، عوامی قرضوں کے دباؤ، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کی شرائط کا سامنا ہے، تو بجٹ پر زیادہ باخبر اور سنجیدہ بحث کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اراکین پارلیمان کو یہ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بجٹ صرف سیاسی دستاویز نہیں بلکہ ہر پاکستانی شہری کی زندگی پر اثر انداز ہونے والا ایک مالیاتی میثاق ہے۔ ہمیں سیاسی تھیٹر کے رجحان کو مالیاتی شعور، تحقیق اور احتساب سے بدلنا ہوگا۔ تب ہی قومی اسمبلی اپنی آئینی ذمہ داری ، عوام کے وسائل کی نگہبان بننے،کا صحیح معنوں میں حق ادا کر سکے گی۔
1985 ء سے اب تک کے سفر کو دیکھا جائے تو پارلیمان میں تدریجی ارتقاء ضرور ہوا ہے،اکثر راستے سے ہٹنے کے باوجود وہ لمحات بھی آئے جب اسمبلی نے اپنے مالیاتی فرائض سنجیدگی سے نبھائے۔ اگر بجٹ اجلاس کو دوبارہ سنجیدہ گفت و شنید کے ایک مؤثر فورم میں بدلا جا سکے، تو یہ نہ صرف معیشت بلکہ قوم کی مجموعی سمت کے تعین کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ قواعد و ضوابط میں نہیں بلکہ ان نمائندوں کے ارادے، تیاری اور سنجیدگی میں ہے جو عوام کے نام پر ایوان میں بولنے آتے ہیں۔