6.1 فیصد گروتھ کے ساتھ خوشحال پاکستان کی حکومت کو زبردستی ہٹایا گیا، ثناء اللہ مستی خیل
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام آباد(صغیر چوہدری ) قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل کی حکومت پر کڑی تنقید ۔ ثناءاللہ مسی خیل نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان اور معشیت کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے،
انسٹال رجیم عوام کا منتخب نہیں کہتا یہ نا الیکشن نہ ہی سلیکشن سے آئے ہیں ،
پورے پاکستان کے اندر پاکستان ن لیگ کو 17 سیٹیں نہیں انہیں 9 سیٹیں بھی نہیں ملی اگر میری بات جھوٹ ثابت ہو تو مجھے گولی مار دینا
اندرون سندھ میں پی ٹی آئی نے 58 سیٹیں جیتی ہیں
انکو عوام نے ووٹ نہیں ڈالا
6.
پاکستان خوشحال ہو رہا تھا اسے ہٹا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا ہوں ،
آپکی منیجمنٹ تین سال سے گراوٹ کا شکار ہے پاکستان کے قرضے 76 ہزار سات ارب کے قرضے ہیں 2 ہزار 8 سو 96 ارب سود کی قسط دینی ہے دس سال تک پرویز مشرف پھر پیپلز پارٹی پھر ن لیگ اقتداریں رہی ہے 27 سو ارب روپیہ سرکلر ڈیٹ ہے ،
مجھے افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ زراعت کا پٹھہ بیٹھا دیا ہے 22 سو ارب روپیہ کسان کو نقصان پہنچایا ہے 2006 کے بعد لائیو اسٹاک کا کوئی سروے نہیں ہوا یہ اتنے عقل سے پیدل لوگ ہیں کہتے ہیں کہ مہنگائی کنٹرول ہو گئی۔
آپ کی گروتھ منفی میں جا رہی ہے 90 فیصد لوگوں نے عید نہیں کی جب یہ کہتے ہیں غربت کم ہوئی ہے لائیو اسٹاک بڑھی ہے مٹن کا گوشت کون خرید سکتا ہے۔
مڈل کلاس ختم ہو چکی ہے
جو وفاقی وزیر میرے ساتھ بیٹھنا چاہے میں تیار ہوں
میاں شہباز کی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ زراعت تباہ ہو گئی ہے میں ذمیندار کا بیٹا ہوں ایمانداری سے کہ رہا ہوں ۔میں حیران ہوں انکی پالیسی کیسی ہے کاشتکار کا گلہ گھونٹ دی اہے کاشتکار کو جیتے جی مار دیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بیگم شائستہ اکرام اللہ
میری یہ تحریر اس شخصیت سے متعلق ہے جس کے بارے میں ہماری نئی نسل کے لوگ بہت ہی کم جانتے ہیں یا جانتے بھی ہوں گے تو نام کی حد تک، میں یہاں ذکر کر رہا ہوں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ایشیائی، مسلم خاتون ایک نام ور ادیبہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب رہنے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ کا۔
تحریک پاکستان کی مشہور خاتون راہ نما، سفارت کار اور معروف ادیبہ بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ 22جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا پورا نام شائستہ اختر بانو سہروردی تھا جو کہ تحریک پاکستان کے معروف بنگالی راہ نما اور سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروری کی بھانجی تھیں۔ ان کے والد حسان سہروردی برطانوی وزیرہند کے مشیر تھے۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ ایک مذہبی سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں جو ایک قدامت پرست خاندان تھا اور اسے اپنی قدامت پرستی پر ناز تھا جہاں لڑکوں کی انگریزی تعلیم کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔ ایسے میں لڑکیوں کی انگریزی اور جدید تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ نے اپنی ابتدائی تعلیم کلکتہ کی ایک نجی درس گاہ کنڈر گارٹن اسکول سے حاصل کی جہاں ان کے اور ان کے بھائی کے سوا سب بچے انگریز یا اینگلو انڈین تھے۔
انہوں نے اپنے والد حسان سہروردی کے زیراثر انگریزی جب کہ والدہ شہر بانو بیگم کی وجہ سے فارسی اور اردو کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔
شائستہ اکرام اللہ نے کلکتہ یونیورسٹی کے لوریٹو ہاؤس کونونٹ سے بی اے آنرز کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد 1932ء میں ان کی شادی انڈین سول سرونٹ اکرام اللہ سے ہوئی جو کہ جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے پہلے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسی دوران ان کو انگلینڈ جانے کا موقع ملا جہاں سے انہوں نے1940 میں یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
پی ایچ ڈی میں ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’ اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری ‘‘تھا۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلی ایشیائی اور مسلم خاتون تھیں۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ لکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنی تحریری زندگی کی ابتدا دلی سے شایع ہونے والے مشہور رسالے ’’عصمت ‘‘ سے کی اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایوں، ادبی دنیا، تہذیب نسواں اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔
یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شائستہ اکرام اللہ 1940 میں واپس ہندوستان لوٹیں، تب تک برطانوی ہند کی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ یہ دنیا میں جنگ عظیم دوئم اور ہندوستان میں سیاسی بے چینی اور افراتفری کا زمانہ تھا، جہاں آل انڈیا مسلم لیگ، قائداعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی جیسے سرکردہ راہ نماؤں کی قیادت میں تحریک پاکستان پورے عروج پر تھی۔
برطانیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں بھی فعال حصہ لیا۔ اس کے بعد جلد ہی آپ بنگال لیجسلیٹیو اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ اپنی علمی اور سیاسی فہم و فراست کی بدولت وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قریب ہوگئیں اور بعد میں انہی کی مدد سے مسلم ویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور مسلم لیگ کی سیاست میں بھرپور طور پر حصہ لیا۔
اپنے خاندانی پس منظر، اعلیٰ تعلیم اور سیاست پر گہری نظر کے سبب وہ فوراً ہی مسلم لیگ کے اہم اراکین میں شمار ہونے لگیں۔
1946 میں جب ہندوستان کی دستورساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو وہ دستورساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔ تاہم بعد میں انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا تھا۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد وہ ڈھاکا سے کراچی تشریف لے آئیں۔ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا جہاں ایک طرف مہاجرین کا سیلاب اُمڈ آیا تھا، ریاست کو جن کی آبادکاری کی مشکل درپیش تھی، وہیں دوسری طرف نوزائیدہ مملکت کو سیاسی افراتفری، عوام میں بے چینی اور زبوں حال معیشت جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ اس دوران انہوں نے محترم فاطمہ جناح، جہاں آراء شاہنواز اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا۔
پاکستان کے ابتدائی دنوں اور ان مشکلات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خودنوشت میں ذکر کیا ہے کہ اُن دنوں حکومت پاکستان کو بنے مشکل سے ایک مہینہ ہوا تھا اور وہ جو کچھ کرسکتی تھی کررہی تھی، جب کہ اس کام میں ان کے علاوہ متعدد عورتوں نے حصہ لیا، جن میں ایسی کئی خواتین تھیں جنھوں نے کبھی کسی قسم کا کام نہیں کیا تھا۔ ان خواتین نے ہزاروں پناہ گزینوں کے کھانے پینے اور ہر طرح کی دیکھ بھال کا ذمے لیا۔ ان میں سے بڑی تعداد کو دوبارہ بسایا گیا۔
پاکستان کی پہلی79 رکنی دستور ساز اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں جن میں سے ایک بیگم جہاں آراء شاہنواز اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ تھیں، جہاں انہوں نے 1954 تک لگ بھگ سات برس رکن اسمبلی کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیے۔ اس دوران انہوں نے بیگم جہاں آرا شاہنواز کے ساتھ مل کر پاکستان میں خواتین کے حقوق، تعلیم، مردوں کے برابر تنخواہ اور دیگر مراعات کے قوانین پر کام کیا اور ان کو اسمبلی سے منظور کروایا۔ بعدازآں انہیں قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے 1956 کے آئین میں خواتین کے حقوق ومراعات کو تسلیم کیا۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ 1964 سے 1967 تک مراکش میں پاکستان کی سفیر رہیں، جب کہ آپ کو پاکستان کی پہلی سول سرونٹ خاتون ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
ا س کے علاوہ آپ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب اور انسانی حقوق کے متفقہ عالمی چارٹر مشن کا بھی حصہ رہیں جہاں انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی مسودے اور نسل کشی کے خلا ف کی جانے والی قانون ساز ی میں بھی حصہ لیا۔
اقوام متحدہ نے ان کی خدمات کے صلے میں انھیں ان الفاظ میں شان دار خراج عقیدت پیش کیا:
’’انسانی حقوق کے عالم گیر اعلامیے کی تیاری میں خواتین کے کردار پر آپ نے بیگم شائستہ اکرام اللہ کا نام متعدد بار سنا ہوگا۔ وہ جنرل اسمبلی کی سماجی، انسانی اور ثقافتی امور پر پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی میں پاکستانی مندوب تھیں۔ اس کمیٹی نے1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مسودے پر بحث کے لیے 81 اجلاس کیے۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ نے اعلامیے میں آزادی، مساوات اور انتخاب پر زور دینے کی بھرپور وکالت کی۔ انہوں نے شادی میں مساوی حقوق پر آرٹیکل 16 کو بھی اعلامیہ میں شامل کرنے کی حمایت کی، جسے وہ بچپن کی شادیوں اور جبری شادیوں جیسے سماجی مسائل سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر دیکھتی تھیں۔‘‘
ان کی تصانیف میں افسانوں کا مجموعہ ’’کوشش ناتمام‘‘،’’دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے‘‘،’’فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ‘‘،’’لیٹرز ٹو نینا‘‘، ’’بیہائینڈ دی ویل‘‘ اور ’’اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری‘‘ شامل ہیں۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے2002 میں انہیں نشانِ امتیاز عطا کیا تھا۔ 10 دسمبر 2000ء کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای ) میں وفات پانے والی بیگم شائستہ اکرام اللہ کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِخاک کیا گیا۔
ہمارے پاکستان کی موجودہ خواتین سیاست دانوں کو سیاست میں بیگم شائستہ اکرام اللہ کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے۔
شائستہ اکرام اللہ کا ایک بیٹا انعام اکرام اللہ (1934تا2004) اور تین بیٹیاں نازاشرف (1938)، سلمیٰ سبحان (1937 تا 2003) اور ثروت (1947) ہیں۔ نازاشرف مشہور آرٹسٹ ہیں جب کہ سلمیٰ سبحان بنگلادیش کے وزیرخارجہ رحمٰن سبحان کی ہم سفر بنیں اور ثروت اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جب کہ ان کے دیور محمد ہدایت اللہ 1968 سے 1970تک ہندوستان کے چیف جسٹس اور1979 سے 1984 تک ہندوستان کے نائب صدر رہے، کچھ وقت تک آپ نے صدرجمہوریہ کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ کی برصغیر کے مسلمانوں، پاکستان اور خواتین کے لیے گراں قدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔