احمد آباد، کراچی طیارہ حادثے میں کئی چیزیں ایک جیسی تھیں، ظفر مسعود
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
پاکستانی بینکر ظفر مسعود نے کہا ہے کہ احمد آباد اور کراچی طیارہ حادثے کو مشترک قرار دیا ہے۔
کراچی میں 2020ء طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے واحد مسافر معروف بینکر ظفر مسعود نے احمد آباد طیارہ حادثے کا تذکرہ کیا ہے۔
بریک فاسٹ ووڈ جنگ میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب میں ظفر مسعود نے کہا کہ احمد آباد اور کراچی طیارہ حادثے میں کئی چیزیں ایک جیسی تھیں۔
گزشتہ روز بھارت کے شہر احمد آباد میں مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار 241 افراد ہلاک جبکہ ایک مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔
انہوں نے کہا کہ طیارہ حادثے میں زندہ بچ جانے کے بعد ذہنی بحالی اصل چیلنج تھا، احمد آباد حاثے میں بچ جانے والے شخص وشواس کمار کی بھی پہلی نشست تھی اور میری بھی پہلی سیٹ تھی۔
ظفر مسعود نے مزید کہا کہ وشواس کمار نے آخری لمحے میں سیٹ تبدیل کی، میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، ریسکیو کرنے والے کسی شخص کو نہیں معلوم تھا میں کون ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ گروپ کے ساتھ میرا پرانا ساتھ ہے، زندگی کا نقصان ہونا سب سے بڑا نقصان ہے، میری کتاب اسی بارے میں ہے کہ زندگی کتنی نازک ہے۔
معروف بینکر کا کہنا تھا کہ میری کتاب کا اردو ورژن بھی فائنل ہوچکا ہے، میں ویسے دیر سے جاگنے کا عادی ہوں، دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو موت کو قریب سے دیکھ کر واپس لوٹتے ہیں۔
ممتاز بینکار ظفر مسعود کی کتاب
اُن کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب میں تاریخ بھی کوٹ کی ہے، طیارہ کریش میں آخری 30 سیکنڈ ایسے تھے، جیسے میں ایک عدالت میں کھڑا ہوں، ان آخری سیکنڈز میں اپنے آپ کو جوابدہ تھا۔
ظفر مسعود نے کہا کہ اہم ہے کہ آپ اپنےآپ کو معاف کرسکیں، اللّٰہ تعالیٰ تو معاف کردے گا، فزیکل ریکوری آسان تھی لیکن ذہنی ریکوری اصل چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے اردگرد بہترین لوگ رہے، فیملی کی سپورٹ ہو تو انسان ہر مشکل سے نکل آتا ہے، متاثرہ افراد سے رابطہ کرنے کا میرے پاس حوصلہ نہیں تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: طیارہ حادثے میں نے کہا کہ
پڑھیں:
غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔